ماضی قریب میں کراچی کئی بار بدامنی کا شکار بنتا رہا ہے، جب میڈیا حکومت کی توجہ بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کی جانب دلاتا ہے تو حکومت حرکت میں آتی ہے اور کچھ اقدامات کر کے عارضی طور پر صورتحال پر قابو پاتی ہے کچھ گرفتاریاں اور اسلحہ کی برآمدگی کے بعدپھر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگتی ہے۔ کچھ عرصے بعد پھر وہی قتل و غارت گری دوبارہ شروع ہو جاتی ہے اور حکومت اپنا آہنی ہاتھ دھونڈنے میں اتنا وقت لگا دیتی ہے کہ درجنوں بے گناہ شہری دہشت گردی کا شکار ہو کر رزق خاک بن جاتے ہیں اور عوام یہی سوچتی رہتی ہے کہ بے گناہ شہریوں کا خون ناحق کب تک بہتا رہے گا اور کب شہر کراچی کو مستقل امن میسر آئے گا؟
شہر قائد میں چار دن بعد ہلاکتوں کاسلسلہ تھم گیااور شہر میں زندگی معمول پر آنے لگی اور شہریوں نے سکھ کا سانس لیا،کاروباری و تجارتی مراکز اورپیٹرول پمپ کھل گئے، سڑکوں پر ٹریفک بحال ہو گیا۔ رینجرز نے کٹی پہاڑی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور متاثرہ علاقوں میں چوکیاں قائم کرکے وہاں رینجرزاہلکاروں سمیت کمانڈوزکو تعینات کرکے علاقوں میں گشت شروع کردیاہے، جبکہ رینجرز نے متاثرہ خاندانوں کو ریسکیو بھی کیا اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔آپریشن کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ پاکستان رینجرزکے ترجمان کے مطابق کٹی پہاڑی اور دہشت گردی سے متاثرہ دیگر علاقوں میں شروع کیا جانے والا آپریشن اب اختتام پذیر ہوگیا ہے اور حکومت کے دعوے کے مطابق امن بحال ہو گیاہے، لیکن کیا یہ امن پائیدار ہے یا دوسری دہشت گردی تک ایک وقفہ ہے؟ آخر کراچی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا یہ سیاسی ہے یا انتظامی اور یا کراچی بین الاقوامی سازش کا شکار ہو گیا ہے؟
کراچی وہ بدنصیب شہر بن چکا ہے جس کے وسائل سے فائدے اٹھانے تو سب آتے ہیں لیکن کوئی اسے اپنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ مسائل پیدا کرنے میں تو اپنا حصہ خوب ڈالتے ہیں لیکن مسائل کے حل کے لئے اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتوں نے کراچی پر تسلط کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ۔
حکومت وقت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعلقی، بے حسی اور چشم پوشی بھی پوری طرح عیاں ہے۔ان کی نظروں کے سامنے دہشت گرد بے دریغ فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں لیکن وہ کسی کو پکڑنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اگر حکومت نے ان کو ایکشن لینے سے منع کیا ہے یا ایکشن کے حکم کے باوجود دہشت گرد پکڑے نہیں جاتے ، دونوں صورتیں باعث شرم ہیں۔ شہر کراچی متعدد ایسے سانحات دیکھ چکا ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعلقی سے بڑے بڑے نقصانات ہوئے۔ 27 دسمبر 2007 کو راول پنڈی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر کراچی کو بلاوجہ آگ و خون میں نہلادیا گیا اور شہریوں کے جانی نقصانات کے ساتھ تقریباً اٹھارہ ارب روپے کی املاک نذر آتش کی گئی۔ 27 دسمبر 2009 کو سانحہ عاشور کے موقع پر اہم تجارتی مرکز بولٹن مارکیٹ کو دہشت گردوں نے پولیس اور رینجرز کی نظروں کے سامنے لوٹ مار کرکے نذر آتش کیالیکن نہ تو کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی سازش کا پردہ چاک ہوا حتی کہ اس کاروائی میں ملوث دہشت گردوں کی وڈیوز اور تصاویر تک منظر عام پر آئیں لیکن کوئی نتیجہ خیز کاروائی نہ ہو سکی۔ فرقہ ورانہ جماعتوں نے بھی کراچی کو اپنی کاروائیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے کیونکہ اس وسیع آبادی والے شہر میں ان کو پنپنے کے تمام مواقع میسر ہیں۔ جبکہ اس خطے میں بہترین جگہ بندرگاہ رکھنے کے باعث بڑی طاقتوں کی جیواسٹرٹیجک پالیسیوں کا شکار بھی بن رہا ہے۔
ہر مصیبت میں سب کی داد رسی کرنے والا، سب کو خوش آمدید کہنے والا، سب کے سکھ دکھ میں شریک ہونے والا شہر کراچی اس وقت لہو لہان ہے۔کراچی کا شہری چاہے گھر میں ہو یا بس میں سفر کر رہا ہو ، دہشت گردوں کی گولیوں کا کھلا نشانہ ہے۔
تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ کراچی سے اپنی جیبیں بھرنے والی حکومتوں کو اس شہر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر ہے تو مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ عارضی اور دکھاوے کے اقدامات سے کراچی کو پائیدار امن نہیں مل سکتا ۔
شہر قائد میں چار دن بعد ہلاکتوں کاسلسلہ تھم گیااور شہر میں زندگی معمول پر آنے لگی اور شہریوں نے سکھ کا سانس لیا،کاروباری و تجارتی مراکز اورپیٹرول پمپ کھل گئے، سڑکوں پر ٹریفک بحال ہو گیا۔ رینجرز نے کٹی پہاڑی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور متاثرہ علاقوں میں چوکیاں قائم کرکے وہاں رینجرزاہلکاروں سمیت کمانڈوزکو تعینات کرکے علاقوں میں گشت شروع کردیاہے، جبکہ رینجرز نے متاثرہ خاندانوں کو ریسکیو بھی کیا اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔آپریشن کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ پاکستان رینجرزکے ترجمان کے مطابق کٹی پہاڑی اور دہشت گردی سے متاثرہ دیگر علاقوں میں شروع کیا جانے والا آپریشن اب اختتام پذیر ہوگیا ہے اور حکومت کے دعوے کے مطابق امن بحال ہو گیاہے، لیکن کیا یہ امن پائیدار ہے یا دوسری دہشت گردی تک ایک وقفہ ہے؟ آخر کراچی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا یہ سیاسی ہے یا انتظامی اور یا کراچی بین الاقوامی سازش کا شکار ہو گیا ہے؟
کراچی وہ بدنصیب شہر بن چکا ہے جس کے وسائل سے فائدے اٹھانے تو سب آتے ہیں لیکن کوئی اسے اپنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ مسائل پیدا کرنے میں تو اپنا حصہ خوب ڈالتے ہیں لیکن مسائل کے حل کے لئے اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتوں نے کراچی پر تسلط کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ۔
حکومت وقت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعلقی، بے حسی اور چشم پوشی بھی پوری طرح عیاں ہے۔ان کی نظروں کے سامنے دہشت گرد بے دریغ فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں لیکن وہ کسی کو پکڑنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اگر حکومت نے ان کو ایکشن لینے سے منع کیا ہے یا ایکشن کے حکم کے باوجود دہشت گرد پکڑے نہیں جاتے ، دونوں صورتیں باعث شرم ہیں۔ شہر کراچی متعدد ایسے سانحات دیکھ چکا ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعلقی سے بڑے بڑے نقصانات ہوئے۔ 27 دسمبر 2007 کو راول پنڈی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر کراچی کو بلاوجہ آگ و خون میں نہلادیا گیا اور شہریوں کے جانی نقصانات کے ساتھ تقریباً اٹھارہ ارب روپے کی املاک نذر آتش کی گئی۔ 27 دسمبر 2009 کو سانحہ عاشور کے موقع پر اہم تجارتی مرکز بولٹن مارکیٹ کو دہشت گردوں نے پولیس اور رینجرز کی نظروں کے سامنے لوٹ مار کرکے نذر آتش کیالیکن نہ تو کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی سازش کا پردہ چاک ہوا حتی کہ اس کاروائی میں ملوث دہشت گردوں کی وڈیوز اور تصاویر تک منظر عام پر آئیں لیکن کوئی نتیجہ خیز کاروائی نہ ہو سکی۔ فرقہ ورانہ جماعتوں نے بھی کراچی کو اپنی کاروائیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے کیونکہ اس وسیع آبادی والے شہر میں ان کو پنپنے کے تمام مواقع میسر ہیں۔ جبکہ اس خطے میں بہترین جگہ بندرگاہ رکھنے کے باعث بڑی طاقتوں کی جیواسٹرٹیجک پالیسیوں کا شکار بھی بن رہا ہے۔
ہر مصیبت میں سب کی داد رسی کرنے والا، سب کو خوش آمدید کہنے والا، سب کے سکھ دکھ میں شریک ہونے والا شہر کراچی اس وقت لہو لہان ہے۔کراچی کا شہری چاہے گھر میں ہو یا بس میں سفر کر رہا ہو ، دہشت گردوں کی گولیوں کا کھلا نشانہ ہے۔
تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ کراچی سے اپنی جیبیں بھرنے والی حکومتوں کو اس شہر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر ہے تو مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ عارضی اور دکھاوے کے اقدامات سے کراچی کو پائیدار امن نہیں مل سکتا ۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ
شہرقائد میں وہ شخص امن قائم کرنا چاہ رہاہے جوخودبڑامجرم رہا،اس ..کوسزا ہوئی اور پھرصدر زرداری نے اس کی سزامعاف کی
ReplyDeleteایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے نظام کو بدلنے کے لئے6 ماہ تک اقتدار سنبھال لیں اور اس کے لئے اگر سیاستدانوں کا صفایا بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے،عبدالستار ایدھی نے کہاکہ اگرچہ خونریزی میں لاکھوں لوگ مارے جائیں گے لیکن وقتی طور پر ملک و قوم کی بھلائی کے لئے جنرل کیانی کو یہ کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں17 لاکھ سرمایہ دار ایسے ہیں جو ایک پیسہ ٹیکس ادا نہیں کرتے، سرمایہ داروں، ٹیکس چوروں اور اللہ کی زکوٰة کے چوروں کو بھی کھلی آزادی ہے کہ وہ ہر آنے والے دن ملک کو معاشی، سماجی لحاظ سے تباہی کی جانب لے جا رہے ہیں جس کا خمیازہ ملک کے95 فیصد غریب عوام بھگت رہے ہی ملک میں ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو ملک میں موجود گند کو صاف کر دے۔
ReplyDelete