اس پوسٹ کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں
گڈو کی لاش اگرچہ شام سے گھر میں پڑی ہے لیکن ماں کو اب بھی یقین نہیں آرہا کہ ننھا گڈو اُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جا چکا ہے ۔۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی ہے اور روتے ہوئے ننھے گڈوکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور منہ کو بے تابی سے چومنے لگتی ہے۔۔۔۔لیکن ننھے گڈو پر ماں کے رونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔۔۔۔
وہ بدستور اپنی ماں کی حالت سے بے خبر پر سکون سویا رہتا ہے وہ ایک بار بھی آنکھیں کھول کر ماں کی طر ف نہیں دیکھتا۔۔۔۔لیکن ماں کا دل اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ گڈو اُسے چھوڑ کر بھی جا سکتا ہے ۔۔۔
ماں کو اب بھی یقین ہے کہ ننھا گڈو "ماں"کہہ کر مسکرا ستا ہو اُس سے لیپٹ جائے گا اور پھر اُسے ماں اپنے سینے سے لگا لے گی ۔۔۔۔کبھی جدا نہ کرنے کیلئے۔۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہو تا ! کیونکہ ماں کے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے ! حقیقت پھر حقیقت ہے ۔ اور حقیقت یہی ہے کہ گڈو مر چکا ہے !وہ ماں کو چھوڑ کر دور بہت دور پریوں کے دیس جا بسا ہے۔۔۔۔۔ایک ایسے دیس کہ جہاں سئ کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا!کبھی بھی نہیں۔۔۔۔!!
ماں کو دکھ ہے وہ ننھے گڈو کو مختصر زندگی میں کوئی بھی خوشی نہ سکی۔۔۔۔نہ اچھے کپڑے ،نہ پیٹ بھر روٹی۔۔۔نہ کوئی کھلونا۔۔کھلونا، جو معصوم بچپن کی نشانی ہو ا کرتا ہے۔ کھلونا کیا وہ تو گڈو کے لئےٹینس بال بھی نہ لے سکے ۔۔۔۔ماں کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ گڈو اپنے خیراتی کفن اوڑھے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔اور وہ گڈو کوانتہائی خواہش کے باجووداُسے اسکول بھی نہیں بھیج سکی۔ ماں کو اچھی طرح یاد ہے جب گڈو بچوں کو رنگ برنگے یو نیفارم میں اسکول جاتے دیکھ کر حسرت اور معصومیت سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھاکرتا تھا "ماں! میں کب اسکول جاؤں گا؟ اور پھر ماں کی آنکھوں میں اُمنڈ آنے والے آنسوؤں کو دیکھ کر وہ ننھا فرشتہ سمجھ جایا کر تا تھاکہ وہ کبھی اسکول نہیں جائے گا۔۔۔۔۔کبھی بھی نہیں!!!
اچانک ماں کو یوں لگا جیسے ننھے گڈو نے اُسے پکارا ہو وہ کہہ رہا ہو کہ ،"ماں مجھے بھوک لگی ہے!!!ماں، مجھے روٹی دو!!!ماں مجھے پیسے دو میں گیند لوں گا!!!ماں، مجھے روٹی دو!!!ماں مجھے۔۔۔۔!!!
اور ماں ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاتی ہے۔۔۔۔!!!
اس پوسٹ کی نویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں
گڈو کی لاش اگرچہ شام سے گھر میں پڑی ہے لیکن ماں کو اب بھی یقین نہیں آرہا کہ ننھا گڈو اُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جا چکا ہے ۔۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی ہے اور روتے ہوئے ننھے گڈوکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور منہ کو بے تابی سے چومنے لگتی ہے۔۔۔۔لیکن ننھے گڈو پر ماں کے رونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔۔۔۔
وہ بدستور اپنی ماں کی حالت سے بے خبر پر سکون سویا رہتا ہے وہ ایک بار بھی آنکھیں کھول کر ماں کی طر ف نہیں دیکھتا۔۔۔۔لیکن ماں کا دل اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ گڈو اُسے چھوڑ کر بھی جا سکتا ہے ۔۔۔
ماں کو اب بھی یقین ہے کہ ننھا گڈو "ماں"کہہ کر مسکرا ستا ہو اُس سے لیپٹ جائے گا اور پھر اُسے ماں اپنے سینے سے لگا لے گی ۔۔۔۔کبھی جدا نہ کرنے کیلئے۔۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہو تا ! کیونکہ ماں کے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے ! حقیقت پھر حقیقت ہے ۔ اور حقیقت یہی ہے کہ گڈو مر چکا ہے !وہ ماں کو چھوڑ کر دور بہت دور پریوں کے دیس جا بسا ہے۔۔۔۔۔ایک ایسے دیس کہ جہاں سئ کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا!کبھی بھی نہیں۔۔۔۔!!
ماں کو دکھ ہے وہ ننھے گڈو کو مختصر زندگی میں کوئی بھی خوشی نہ سکی۔۔۔۔نہ اچھے کپڑے ،نہ پیٹ بھر روٹی۔۔۔نہ کوئی کھلونا۔۔کھلونا، جو معصوم بچپن کی نشانی ہو ا کرتا ہے۔ کھلونا کیا وہ تو گڈو کے لئےٹینس بال بھی نہ لے سکے ۔۔۔۔ماں کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ گڈو اپنے خیراتی کفن اوڑھے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔اور وہ گڈو کوانتہائی خواہش کے باجووداُسے اسکول بھی نہیں بھیج سکی۔ ماں کو اچھی طرح یاد ہے جب گڈو بچوں کو رنگ برنگے یو نیفارم میں اسکول جاتے دیکھ کر حسرت اور معصومیت سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھاکرتا تھا "ماں! میں کب اسکول جاؤں گا؟ اور پھر ماں کی آنکھوں میں اُمنڈ آنے والے آنسوؤں کو دیکھ کر وہ ننھا فرشتہ سمجھ جایا کر تا تھاکہ وہ کبھی اسکول نہیں جائے گا۔۔۔۔۔کبھی بھی نہیں!!!
اچانک ماں کو یوں لگا جیسے ننھے گڈو نے اُسے پکارا ہو وہ کہہ رہا ہو کہ ،"ماں مجھے بھوک لگی ہے!!!ماں، مجھے روٹی دو!!!ماں مجھے پیسے دو میں گیند لوں گا!!!ماں، مجھے روٹی دو!!!ماں مجھے۔۔۔۔!!!
اور ماں ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاتی ہے۔۔۔۔!!!
اس پوسٹ کی نویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔