Saturday, March 27, 2010

گو امریکہ گو … دو امریکہ دو


اک ایسے معاشرے کا تصور فرمایئے جہاں 30 فیصد جرائم غیرت کے نام پر ہوتے ہوں، 30 فیصد جرائم تجارت کے نام پر ہوتے ہوں یعنی سمگلنگ کو بھی تجارت سمجھا جائے، 30 فیصد جرائم روحانیت کے نام پر ہوتے ہوں اور صرف 10 فیصد جرائم کو ہی جرائم سمجھا جاتا ہو اور گہرائی میں جا کر دیکھیں تو ان 10 فیصد جرائم کو بھی ”نظریہ ضرورت“ کی ڈھال میسر ہو۔ چند ہفتے پہلے میں نے اپنے دوست ”گرائیں“ وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے کہا … ”لائل پور کے 8 بازاروں کا حال ابتر ہے تجاوزات سڑکوں کے درمیان پہنچ چکی ہیں۔ ان کا تو کوئی بندوبست کرائیں۔ رانا ثناء اللہ کا جواب تاریخی تھا بلکہ یوں سمجھیں کہ پاکستان کی اصل تاریخ کا خلاصہ ہے، کہا …
شکر کریں کہ لوگ ریڑھیاں چھابڑیاں لگا کر صرف سڑکیں ہی روک رہے ہیں، ڈاکے نہیں ڈال رہے“
یہ ہے وہ معاشرہ جس کے سیاسی مکھیا ”گو امریکہ گو“ کی ملا جپنے میں مصروف ہیں اور زمینی حقائق سے ان کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا بطخوں کا پرواز کے ساتھ ہوتا ہے۔ دن دیہاڑے دھاندلی اور دھوکے کا ایسا کاروبار شاید ہی کسی اور جگہ چلتا ہو۔ کیری لوگر بل آیا تو دم پر کھڑے ہو کر بھوت پھیریاں لینے لگے۔ ہیلری نے کہا … ”رونا پیٹنا کیسا امداد نہیں لینی تو نہ لو“ جھوٹے غیرت مندوں کی دمیں ریورس ہو گئیں۔ کیا یہ بھلے مانس اتنا بھی نہیں جانتے کہ اک پنجابی محاورہ کے مطابق ”منہ کھائے تو آنکھ شرمائے“ لیکن انہیں شاید اردو کا یہ محاورہ زیادہ بھاتا ہے کہ… ”کھانا بھی غرانا بھی“ لیکن محاوروں سے کہیں زیادہ بہتر و برتر یہ فرمان ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
آج میں ڈیڑھ درجن اخباروں کے بوجھ تلے اس طرح دبا ہوں کہ اپنی روح کا کراہنا بھی صاف سنائی دے رہا ہے۔ میرے ملک کی ساورنٹی کا سورج سوا نیزے پر چمک رہا ہے اور میرے حکمران اسلام آباد میں خوب چہک رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے غیور عوام کے لئے اک اور معرکہ سر کر لیا۔
تیرگی زادوں کی روشن فتح ان اخباری سرخیوں سے عیاں ہے۔
”امریکہ پاکستان کو دفاعی سامان اور 3 تھرمل پلانٹس دے گا۔“
”امریکہ پاکستان کو 125 ملین ڈالر دے گا۔ 3 بجلی گھروں کی تعمیر میں تعاون کا وعدہ“
”بجلی گھروں کے لئے مالی امداد، منڈیوں تک رسائی، 5 شہروں تک فضائی سفر“۔ امریکہ کا اعلان۔ ”پاکستان کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی دینے پر غور، بجلی بحران حل کریں گے“ امریکہ ”فوجی سامان کی درخواست منظور۔ توانائی کے لئے 125 ملین ڈالرز منڈیوں تک رسائی“ امریکہ
"U S Vows To Boost Energy, Defence Cooperation"
اور بی بی ہیلری کا بیان تو بہت ہی رومانٹک ہے کہ ”پاکستان کا مستقبل ہمارا مستقبل“ پھر بھی … ”گو امریکہ گو“
حالانکہ عملاً ساری تاریخ ”دو امریکہ دو“ کی گردان سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے اندھیرے امریکہ ختم کرے گا۔
دفاعی سامان بھی امریکہ دے گا
معیشت کو بھی وہی سنبھالے گا
انرجی، ڈیفنس اور اکانومی کے علاوہ اور ہوتا ہی کیا ہے؟ اس کے باوجود بھی ”گو امریکہ گو“ کی ڈھٹائی کو وقتی طور پر ایک طرف رکھتے ہوئے صرف یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو طاقت ہمیں یہ سب کچھ دان کر رہی ہے وہ بدلے میں پاکستان سے کیا وصولے گی؟ کیا انہیں ہمارے وزیراعظم کے سوٹ پسند ہیں یا وزیر خارجہ کا منہ بنا بنا اور لفظ چبا چبا کر بولنا یا صدر کا ہیئر سٹائل؟ ”گو امریکہ گو“ کو چھوڑو … صرف اتنا پوچھو کہ ان سب مہربانیوں کے جواب میں ہمیں کیا دینا ہو گا؟؟؟ اور سارے ملبے یہود و نصاریٰ پر ڈالنے والے یاد رکھیں کہ وہ دینے نہیں آئے بلکہ آپ مانگنے کے لئے با جماعت پیش ہوئے کیونکہ آپ کے پاس اس کے علاوہ نہ کوئی چوائس ہے نہ آپشن!!!


 


چوراہا…حسن نثار


4 comments:

  1. ميں تو صرف يہ جانتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے ميں سب سے زيادہ کام ذرائع ابلاغ يعنی صحافيوں نے کيا ہے

    ReplyDelete
  2. لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔ اس بندے کا تو دماغ ہی خراب ہے۔ جانتا نہیں کہ "امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے"۔ :twisted:

    ReplyDelete
  3. ہاں جی صحافی بس اسی وقت اچھے لگتے ہیں جب میرے مطلب کی بات کریں ورنہ دوسری صورت میں معاشرہ تباہ کر رہے ہیں :twisted:

    ReplyDelete
  4. سب سے زیادہ قابل ذکر تو وہ طبقہ ہے جس کا ذکر کالم کے آخر میں کیا گیا۔ یعنی ' لو امریکا لو ' کا معاملہ۔ گو امریکا کا نعرہ لگانے والوں کو سب سے زیادہ اعتراض اسی بات پر ہے کہ امریکا نے جب کسی سے دوستی کی، اپنے مفاد کے لیے کی۔ لیکن ہم نے جب امریکا سے دوستی کی، تب اپنا مفاد تک ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔

    ReplyDelete