یہ پوسٹ میں نے ایک اردو فورم پڑھی تھی۔ مجھے پسند آئی اس لئے آپ سے بھی شئیر کر رہا ہوں۔
بيٹا ون، ٹو، تھری سناؤ-- ماشاع اللہ-- بہت ذہين بچی ہے-- کونسی کلاس ميں ہے-- کيا؟ صرف دوسال کی ہے-- وغيرہ وغيرہ- ان جملوں سے تو آپ سب ہی مانوس ہونگے- جب بچہ کم عمری ميں ہی دو کا پہاڑا سنانے لگے ، کوئ انگريزی کی نظم اپنی توتلی زبان ميں گنگنا لگے- تو داد دينا فطری عمل ہے اور اسی فطری عمل کے نتيجے ميں ميں اپنی تين سال کی بھتيجی کو چڑيا گھر گھمانے لے گيا- بچی کے تاثرات بالکل ويسے ہی تھے کہ جو کسی بچے کے پہلی بار ايسی جگہ آنے کے نتيجے ميں ہوتے ہيں - طوطا ، شير ، ہرن اور پھر ہاتھي- پر ہاتھی کی باری جب آئ تو يہ ميں ديکھ کر چونک گيا کہ محترمہ ہاتھی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑيں تھيں- وجہ پوچھی تو فرمانے لگيں ” ان سے دعا مانگيں” - ميں بے اختيار مسکرايا اور پھر سنجيدھ شکل بنا کر اسےسمجھانے لگا - گھر واپس آکر جسے بھي يہ واقعہ سنايا اس نےقہقہہ لگا کر بچی کو سمجھانے کی کوشش کری - ليکن ايک بچہ جو صبح شام اپنی گھر کے ٹي وی پہ ”بندر اور ہاتھی مہاراج ”کو کارٹونز ميں کارنامے کرتے ديکھتا ہے وہ کس طرح آسانی سے مطمئن ہوسکتا ہے؟
ميں جب چھوٹا تھا تو ”پنک پينتھر” کو ديکھ اسی جيسی حرکتيں کرتا ليکن کارٹون سے قبل پي ٹي وي کے”تارڑ چاچا” ہميشہ ايسے سبق دے جاتے کہ وہ آج تک ذہن ميں نقش ہيں- تھوڑا بڑا ہوا تو ”حکيم سعيد” کے نونہال ميں چڑيلوں اور بھوتوں کی کہانياں ميری کمزوری تھيں پر ان کہانيوں ميں بھی ايسے پيغام پوشيدہ ہوتے تھے کہ جن سے اخلاقيات کا سبق ملتا تھا-
افسوس کہ اب تارڑ چاچا کی جگہ ”ہنومان” نے لے لی ہے اور نونہال کی جگہ اخلاقيات کا سبق ٹی وی شوز ميں منی اسکرٹ ميں مبلوس دوشيزائيں سکھاتی ہيں-
چاچا تارڑ تو بس ایک بار کارٹون دکھا دیتا تھا،کسی بھی چیز کی ایک حد سے زیادتی اچھی نہیں ہوتی،، آج کل مختلف چینلز پر 24 گھنٹے کارٹون چلتے رہتے ہیں۔ اور بچے دیکھ دیکھ کے نظریں بھی خراب کرتے ہیں اور ان کی تعلیمی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ نیز کارٹونوں ڈراموں فلموں، رئلٹی شوز اور ننگ دھڑنگ ناچ کا بھارتی کلچر کا اثربچوں کے ذہنوں پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے لگا ہے۔ ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ماں باپ ہمیں ایک محدود وقت تک ٹی وی دیکھنے کی اجازت دیتے تھے اور دیگر ایکٹیوٹیز جیسے مسجد جانا،، سکول کا کام کرنا وغیرہ پربھی ہمیں مجبور کر کے بٹھاتے تھے،، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں اگر اسلام بہت زیادہ نہیں تو ایک درمیانی سے حالت میں موجود ہے۔ کسی بھی غلط کام کرنے پر ہمارے اندر ہمارا ضمیر ہمیں احساس گناہ دیتا رہتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مثبت عادات کم ہوتی جا رہی ہیں۔
ReplyDeleteمسلہ ایک ہو تو بندہ بات بھی کرئے ۔ اتنے چینل کھل گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ماں باپ بچے سب ٹی وی کے اگے منہ کھلے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کیا مجال ہے کوئی پروگرام رہ جائے۔ پاں کچن میں کام کرتے ہوئے بچے سے پوچھے گی بیٹی بتا اب ساس کہاں پہنچی ہے بہپو نے کون سی ساڑھی پہنی ہے ۔ ابا جی کی آواز آئے گی بیٹا ذرا دیکھنا ہیرو کیسا لگ رہا ہے ۔ آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ ہیرو کی شکل آپ کے ابا سے ملتی ہے۔ جہاں پورا گھر کارٹون بنا ہو وہاں کس کس کو سمجھیں گے
ReplyDeleteبچے تو آخر بچے ہیں ۔ عصر حاضر میں بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر یہ حال ہے کہ لوگ شادی میں آگ کے گرد پھیرے نہیں کرتے باقی تمام ہنووانہ رسمیں مع لڑکوں لڑکیوں کے بے شرمی سے ناچنے کے سب کچھ ہوتا ہے
ReplyDeleteاس کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ وہ بچے بہی ہیں جو پہلا لفظ اللہ سیکہتے ہیں اور جن کی مائیں انہیں اللہ اور رسول سے متعلق لوری سناتی ہیں
فرحان جو مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں ان میں مینے ایسی بیماری نہیں دیکھی
ReplyDelete( جبکہ وہاں ہر چوراہے پر ہنومان اور گڑینش گڑے نظر آتے ہیں) بلکہ وہ ہم سے ذیادہ دین کے نزدیک محسوس ہوئے دقیانوسیت کی حد تک ویسے وہاں بھی ہر علاقے کے حساب سے مسلمانوں کا رویہ نظر آتا ہے !
اصل مسئلہ ہی گھر کے ماحول کا ہےاگر بڑے صحیح ہوں گے تو بچے خود بخود صحیح ہوجاتے ہیں،باقی بچوں کی معصومیت کو ہنسی میں اڑانے کے ساتھ ساتھ اگر انکو اصل بات سمجھا دی جائے تو مسئلہ پیداانہیں ہوتا
مسئلہ بچوں کے ساتھ نہیں والدین کے ساتھ ہے
ReplyDeleteجب والدین خود ہی فحش چینل دیکھیں گے
میری مراد انڈین ڈانس پروگرامز سے ہے
ویسے اب تو پاکستانی چینل بھی اس میں خوب حصہ لے رہا ہے
اسلامی ٹی وی چینل تو بوڑھوں اور رمضان کی حد تک رہ گئے ہیں
کل والینٹان ڈے کے موقع پر ایک عدد ایس ایم ایس موصول ہوا
ملاحضہ کیجئے
جس جس کے کپل ہیں ان کو ہیپی ویلنٹائن
اور جس کے نہیں وہ دیکھے عالم آن لائن
پاکستانی ٹی وی بھی اب کسی سے کم نہیں رہا
جانے کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک کی عوام میڈیا اور حکمرانوں کو
کوئی بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتا ہے نا ہی پسند کر رہا ہے
جب تربیت ہی اچھی نہیں ہو گی تو مستقبل میں ہو گا کیا
بس نام کے مسلمان ہیں اور بس
مذہب کے لئے کٹ مریں گے پر عمل نہیں کریں گے
گانے سننا اب گناہ نہیں رہا
10 محرم کا حلیم تو بنے گا پر گانے کی دھن پر
گاڑی میں ٹیپ تو ہو گا پر صرف گانون کے لئے
ٹی وی دیکھیں گے تو سب مگر ڈرامے ڈانس اور فلمیں
ہم خود ہی نہیں چاہتے کے ہم اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم دیں
بچوں کو کیوں قصور وار ٹہرائیں