چاروں صوبائی حکومتوں نے ہفتے میں 2 چھٹیاں کرنے سے متعلق وفاقی حکومت کی تجویز کی حمایت کردی ہے۔ لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ آج وفاقی حکومت پورے ملک میں 2 چھٹیوں کا اعلان کرسکتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سےبجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کے استعمال اور ان پر آنے والے اخراجات میں کمی اور متعدد دیگر مسائل پر قابوپانے میں مدد ملے گی ۔اس تجویز کی چاروں صوبوں نے تائید کی ہے۔ پورے ملک میں ہفتے میں 40 گھنٹے کام کے حساب سے اوقات کار مقرر کئے جائیں گے۔ 2 چھٹیوں کے اعلان کا اطلاق وفاقی حکومت‘ چاروں صوبائی حکومتوں اور آزاد کشمیر حکومت کے انتظامی کنٹرول میں آنے والے دفاتر‘ خودمختار نیم خودمختار اداروں‘ کارپوریشنوں اور لوکل باڈیز کے ساتھ ساتھ بعض نجی اداروں پر بھی ہوگا۔
اس فیصلے سے بجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کے استعمال اور ان پر آنے والے اخراجات میں کمی اور متعدد دیگر مسائل پر قابوپانے کیا مدد ملے گی یہ وقت بتائے گا۔ البتہ پاکستان میں دفاتر کے اہم ترین کام یہ کئے جاتے ہیں۔ کلک کریں
اس فیصلے سے بجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کے استعمال اور ان پر آنے والے اخراجات میں کمی اور متعدد دیگر مسائل پر قابوپانے کیا مدد ملے گی یہ وقت بتائے گا۔ البتہ پاکستان میں دفاتر کے اہم ترین کام یہ کئے جاتے ہیں۔ کلک کریں
جن کی تصاویر آپ نے دکھائی ہیں یہ سب جدید ٹیکنالوجی والے جدید لوگ ہیں جن پر پرانی باتوں کا اثر مشکل ہے لیکن ہفتے میں دو چھٹیاں ترقی یافتہ ملکوں کا رواج ہے جس میں امریکہ اور یورپ شامل ہیں ۔ اس لئے اس پر عمل کرنے میں اعتراض نہیں ہونا چاہیئے
ReplyDeleteجن کی تصاویر آپ نے دکھائی ہیں یہ سب جدید ٹیکنالوجی والے جدید لوگ ہیں جن پر پرانی باتوں کا اثر مشکل ہے لیکن ہفتے میں دو چھٹیاں ترقی یافتہ ملکوں کا رواج ہے جس میں امریکہ اور یورپ شامل ہیں ۔ اس لئے اس پر عمل کرنے میں اعتراض نہیں ہونا چاہیئے
ReplyDeleteاب سُنیئے حقیقت کیا ہے ۔ میں نے 1965ء تک جس سرکاری ادارے میں کام کیا وہاں ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی تھیں کیونکہ تمام ٹیکنیکل ادارے ہفتے میں پانچ دن کام کرتے تھے ۔ ٹیکنیکل لوگ ہفتے میں 43 گھنٹے کام کرتے تھے اور نان ٹیکنیکل 40 یا 41 گھنٹے ۔ ایک فیڈرل سیکرٹری صاحب نے کچھ دن ایک فائل پر توجہ نہ دی ۔ ہفتہ کے دن وزیر صاحب نے پوچھ لیا تو انہوں نے متعلقہ ادارے کے سربراہ کو ٹیلیفون کیا ۔ معلوم ہوا کہ چھٹی ہے ۔ تو موصوف نے حکمنامہ جاری کر دیا کہ کام چھ دن ہوا کرے گا ۔
ReplyDeleteجب چھ دن کام شروع ہوا تو پیداوار کافی کم ہو گئی کیونکہ اصل میں لوگ پہلے سے کم کام کرنے لگ گئے تھے کیونکہ وہ پانچ کی بجائے چھ دن چائے پینے اور دوپہر کا کھانا کھانے لگے گو دوپہر کے کھانے کا وقفہ ختم کر دیا گیا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد باقی وقت چھٹی ہونے تک ادھر ادھر گذار دیتے ۔ اور کچھ ایسے بھی ہو گئے کہ دن کے باقی وقت میں بزنس شروع کر لیا ۔ رات جاگنا پڑا تو نیند دفتر میں پوری کر لی
ہمارے ملک میں آج تک کلرکوں کی حکومت ہے سو ذولفقار علی بھٹو صاحب کے زمانہ میں یہ بھی ہوا کہ کلرکوں نے اپنے اوقاتِ کار کم کر کے 38 یا 39 گھنٹے فی ہفتہ کر لئے ۔ جبکہ يورپ میں کلرکوں کے اوقاتِ کار ٹیکنیکل لوگوں سے زیادہ ہوتے تھے ۔ کلرکوں کے 45 اور ٹیکنیکل کے 40 گھنٹہ فی ہفتہ
اب سُنیئے حقیقت کیا ہے ۔ میں نے 1965ء تک جس سرکاری ادارے میں کام کیا وہاں ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی تھیں کیونکہ تمام ٹیکنیکل ادارے ہفتے میں پانچ دن کام کرتے تھے ۔ ٹیکنیکل لوگ ہفتے میں 43 گھنٹے کام کرتے تھے اور نان ٹیکنیکل 40 یا 41 گھنٹے ۔ ایک فیڈرل سیکرٹری صاحب نے کچھ دن ایک فائل پر توجہ نہ دی ۔ ہفتہ کے دن وزیر صاحب نے پوچھ لیا تو انہوں نے متعلقہ ادارے کے سربراہ کو ٹیلیفون کیا ۔ معلوم ہوا کہ چھٹی ہے ۔ تو موصوف نے حکمنامہ جاری کر دیا کہ کام چھ دن ہوا کرے گا ۔
ReplyDeleteجب چھ دن کام شروع ہوا تو پیداوار کافی کم ہو گئی کیونکہ اصل میں لوگ پہلے سے کم کام کرنے لگ گئے تھے کیونکہ وہ پانچ کی بجائے چھ دن چائے پینے اور دوپہر کا کھانا کھانے لگے گو دوپہر کے کھانے کا وقفہ ختم کر دیا گیا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد باقی وقت چھٹی ہونے تک ادھر ادھر گذار دیتے ۔ اور کچھ ایسے بھی ہو گئے کہ دن کے باقی وقت میں بزنس شروع کر لیا ۔ رات جاگنا پڑا تو نیند دفتر میں پوری کر لی
ہمارے ملک میں آج تک کلرکوں کی حکومت ہے سو ذولفقار علی بھٹو صاحب کے زمانہ میں یہ بھی ہوا کہ کلرکوں نے اپنے اوقاتِ کار کم کر کے 38 یا 39 گھنٹے فی ہفتہ کر لئے ۔ جبکہ يورپ میں کلرکوں کے اوقاتِ کار ٹیکنیکل لوگوں سے زیادہ ہوتے تھے ۔ کلرکوں کے 45 اور ٹیکنیکل کے 40 گھنٹہ فی ہفتہ
اگر ایسی کوئ تجویز زیر غور ہے تو میں اسکے حق میں ہوں۔ اس لئیے کہ خاص طور پر وہ خواتین جو جاب کرتی ہیں، انکے لءیے ایکدن کی چھٹی تو ہفتے بھر کے گھریلو رکے ہوئے کاموں کو نبٹانے میں گذر جاتی ہے۔ اس طرح سے انکے حصے میں کوئ چھٹی نہیں آتی۔ مردوں کا بھ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھریلو سطح پہ کوئ بھی کام کرنے کے لائق نہیں رہتے بلکہاپنے خاندان کے ساتھ مناسب اور تعمیری وقت نہین گذار پاتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسی نکتے کو سامنے رکھکر ہفتے میں دو چھتیاں دی جاتی ہیں۔
ReplyDeleteاگر ایسی کوئ تجویز زیر غور ہے تو میں اسکے حق میں ہوں۔ اس لئیے کہ خاص طور پر وہ خواتین جو جاب کرتی ہیں، انکے لءیے ایکدن کی چھٹی تو ہفتے بھر کے گھریلو رکے ہوئے کاموں کو نبٹانے میں گذر جاتی ہے۔ اس طرح سے انکے حصے میں کوئ چھٹی نہیں آتی۔ مردوں کا بھ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھریلو سطح پہ کوئ بھی کام کرنے کے لائق نہیں رہتے بلکہاپنے خاندان کے ساتھ مناسب اور تعمیری وقت نہین گذار پاتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسی نکتے کو سامنے رکھکر ہفتے میں دو چھتیاں دی جاتی ہیں۔
ReplyDeleteملک پہلے ہی ڈوب رہا ہے اورحکومت ملک میں 2 چھٹیوں کا اعلان کررہی ہے :oops:
ReplyDeleteملک پہلے ہی ڈوب رہا ہے اورحکومت ملک میں 2 چھٹیوں کا اعلان کررہی ہے :oops:
ReplyDeleteملک ڈوبنے کا دو چھٹیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک کے لیے چھٹیوں میں بھی جان حاضر ہے۔ :twisted:
ReplyDeleteرہی بات چھٹیوں کی تو کم از کم جی سی یو فیصلآباد کی انتظامیہ کو حیاء آجائے گا اور وہ ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیں گے جو انھوں نے سینڈیکیٹ سے منظور کروا لیا ہے۔ اور دور دراز سے آنے والے طلبہ ہفتے میں دو دن اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزار سکیں گے۔
ملک ڈوبنے کا دو چھٹیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک کے لیے چھٹیوں میں بھی جان حاضر ہے۔ :twisted:
ReplyDeleteرہی بات چھٹیوں کی تو کم از کم جی سی یو فیصلآباد کی انتظامیہ کو حیاء آجائے گا اور وہ ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیں گے جو انھوں نے سینڈیکیٹ سے منظور کروا لیا ہے۔ اور دور دراز سے آنے والے طلبہ ہفتے میں دو دن اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزار سکیں گے۔
ہا ہا ہا۔۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب۔۔
کام ویسے ہی کم ہوتا تھا کہ اب مزید 1 دن کم
پھر 1 گھنٹہ زیادہ کرنا پڑے گا کام روز جو خواتین 5 بجے نکلا کرتی تھیں
گھر آکر گھر کے کام کرنا ہوتے ہیں
اب مغرب کے بعد عشاء تک گھر سے باہر رہا جائے گا
تو گھر کے کام کون کرے گا ان قانون پاس کرنے والوں کا باپ؟؟؟؟
ہا ہا ہا۔۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب۔۔
کام ویسے ہی کم ہوتا تھا کہ اب مزید 1 دن کم
پھر 1 گھنٹہ زیادہ کرنا پڑے گا کام روز جو خواتین 5 بجے نکلا کرتی تھیں
گھر آکر گھر کے کام کرنا ہوتے ہیں
اب مغرب کے بعد عشاء تک گھر سے باہر رہا جائے گا
تو گھر کے کام کون کرے گا ان قانون پاس کرنے والوں کا باپ؟؟؟؟
ہا ہا ہا۔۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب۔۔
کام ویسے ہی کم ہوتا تھا کہ اب مزید 1 دن کم
پھر 1 گھنٹہ زیادہ کرنا پڑے گا کام روز جو خواتین 5 بجے نکلا کرتی تھیں
گھر آکر گھر کے کام کرنا ہوتے ہیں
اب مغرب کے بعد عشاء تک گھر سے باہر رہا جائے گا
تو گھر کے کام کون کرے گا ان قانون پاس کرنے والوں کا باپ؟؟؟؟
ہا ہا ہا۔۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب۔۔
کام ویسے ہی کم ہوتا تھا کہ اب مزید 1 دن کم
پھر 1 گھنٹہ زیادہ کرنا پڑے گا کام روز جو خواتین 5 بجے نکلا کرتی تھیں
گھر آکر گھر کے کام کرنا ہوتے ہیں
اب مغرب کے بعد عشاء تک گھر سے باہر رہا جائے گا
تو گھر کے کام کون کرے گا ان قانون پاس کرنے والوں کا باپ؟؟؟؟
طارق راحیل، انکے باپ تو کام نہیں کریں گے۔ کام تو آپکو ہی کرنا پڑیگا لیکن اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو انکے یہاں بحی ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن وہ ترقی اور کام میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ اسکی وجہ کام کی پلاننگ ہے۔ کسی شخص کے موجود رہنے نہ ہونے سے نہیں بلکہ اسکے کام کی مقدار سے اس چیز کا ناپا جاتا ہے۔ اسے کریڈت آورز یا ورک لوڈ کہتے ہین۔ اب اگر کوء شخص آٹھ گھنٹے روزانہ کام کرتا ہے تو پانچ دن میں چالیس گھنٹے ہو جاءیں گے۔ یہ وہی نو سے پانچ کا ٹائم ہوگا بس آپکو جمعے کے دن کی آدھی چھٹی نہیں ملے گی۔ اس پہ خاصی لے دے ہوسکتی ہے۔ تو اس صورت میں ہفتے میں متوفع دو چھٹیاں جمعے اور اتوار کی بھی کی جا سکتی ہیں۔ اس میں نقصان صرف یہ ہوگا کہ دنیا کے بڑے بڑے تجارتی مراکز ترقی یافتہ میں ہیں تو ہفتے کے دن ان سے ہماری کوئ ڈیلنگ نہیں ہو پاءے گی جبکہ جمعے کے دن وہ کھلے ہونگے اور ہم بند اس لئیے انکی ہم سے کوئ تجارتی ڈیلنگ نہیں ہو پائے گی۔ چونکہ ہماری مارکٹ چھوٹی ہے اس لئے نقصان ہمارا ہی ہوگا انکا نہیں۔ تو دو چھٹیوں میں عام طور سے یہی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
ReplyDeleteدوسری طرف ملازمت پیشہ خواتین کے گھر میں کاموں کا بٹوارہ اسی طرح رکھا جاتا ہے کہ گھر کے سب لوگ اپنے حصے کا کام کرین۔ کام بانٹ لینے سے ہی کم ہوتا ہے۔ فی زمانہ اقتصادیات جس نہج پہ چل رہے ہیں وہاں خواتین کا ملازمت کرنا زیادہ تر ھالات میں ضرورت ہی ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک ہم مزاجآ آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں اس لئے خواتین کی ملازمت کے ساتح اس طرح کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔
ہفتے میں دو چھٹیان اس لئے بھی بہتر ہیں کہ انسان کماتا تو اپنے اہل خانہ کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے ہے تو اسے انکے ساتھ وقت گذارنے کا موقع بھی ملنا چاہئیے۔ پیسہ ہر چیز کا بدل تو نہیں ہوتا۔ خاص طور پہ انسانی تعلقات کا۔
طارق راحیل، انکے باپ تو کام نہیں کریں گے۔ کام تو آپکو ہی کرنا پڑیگا لیکن اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو انکے یہاں بحی ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن وہ ترقی اور کام میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ اسکی وجہ کام کی پلاننگ ہے۔ کسی شخص کے موجود رہنے نہ ہونے سے نہیں بلکہ اسکے کام کی مقدار سے اس چیز کا ناپا جاتا ہے۔ اسے کریڈت آورز یا ورک لوڈ کہتے ہین۔ اب اگر کوء شخص آٹھ گھنٹے روزانہ کام کرتا ہے تو پانچ دن میں چالیس گھنٹے ہو جاءیں گے۔ یہ وہی نو سے پانچ کا ٹائم ہوگا بس آپکو جمعے کے دن کی آدھی چھٹی نہیں ملے گی۔ اس پہ خاصی لے دے ہوسکتی ہے۔ تو اس صورت میں ہفتے میں متوفع دو چھٹیاں جمعے اور اتوار کی بھی کی جا سکتی ہیں۔ اس میں نقصان صرف یہ ہوگا کہ دنیا کے بڑے بڑے تجارتی مراکز ترقی یافتہ میں ہیں تو ہفتے کے دن ان سے ہماری کوئ ڈیلنگ نہیں ہو پاءے گی جبکہ جمعے کے دن وہ کھلے ہونگے اور ہم بند اس لئیے انکی ہم سے کوئ تجارتی ڈیلنگ نہیں ہو پائے گی۔ چونکہ ہماری مارکٹ چھوٹی ہے اس لئے نقصان ہمارا ہی ہوگا انکا نہیں۔ تو دو چھٹیوں میں عام طور سے یہی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
ReplyDeleteدوسری طرف ملازمت پیشہ خواتین کے گھر میں کاموں کا بٹوارہ اسی طرح رکھا جاتا ہے کہ گھر کے سب لوگ اپنے حصے کا کام کرین۔ کام بانٹ لینے سے ہی کم ہوتا ہے۔ فی زمانہ اقتصادیات جس نہج پہ چل رہے ہیں وہاں خواتین کا ملازمت کرنا زیادہ تر ھالات میں ضرورت ہی ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک ہم مزاجآ آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں اس لئے خواتین کی ملازمت کے ساتح اس طرح کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔
ہفتے میں دو چھٹیان اس لئے بھی بہتر ہیں کہ انسان کماتا تو اپنے اہل خانہ کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے ہے تو اسے انکے ساتھ وقت گذارنے کا موقع بھی ملنا چاہئیے۔ پیسہ ہر چیز کا بدل تو نہیں ہوتا۔ خاص طور پہ انسانی تعلقات کا۔
پتہ نہیں یہ محض اتفاق ہے یا کیا کہ میرے اکثر خیالات کی ترجمانی انیقہ اور راشد کامران کر دیتے ہیں چبانچہ میں اس معاملہ میں بھی انیقہ سے متفق ہوں :cool:
ReplyDeleteپتہ نہیں یہ محض اتفاق ہے یا کیا کہ میرے اکثر خیالات کی ترجمانی انیقہ اور راشد کامران کر دیتے ہیں چبانچہ میں اس معاملہ میں بھی انیقہ سے متفق ہوں :cool:
ReplyDelete