آج کل ہمارے ملک میں کتب بینی کا رواج زوال پذیری کا شکار ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ ٹی وی و کمپیوٹر کی وجہ سے کتابوں کی اہمیت کم ہوگئی ہےمگریہ بات درست نہیں ہے کیونکہ مغربی ممالک میں کتب بینی اب بھی زندہ ہے جب کہ وہ تو ہم سے کئی گنا ترقی یافتہ ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی ہم سےآگے ہیں ۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری قوم کتاب کی افادیت کو نہیں سمجھتی۔کتاب سے دوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں کتابوں کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا جاتا ہے، آج کل کتب بینی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور لوگ اسے وقت کا زیاں گردانتے ہیں کہ جب انٹرنیٹ پر تمام معلومات چند سیکنڈز کی دوری پر موجود ہیں تو کتابوں کا مطالعہ کیوں کیا جائے۔ یہ فقط ایک علاقے یا شہر کا المیہ نہیں ہے بلکہ ہم پاکستانی بحیثیت قوم کتابوں کی اہمیت کو بھولتے جارہے ہیں۔بہترین کتابوں کا مطالعہ نہ صرف ہماری ذہنی نشو نما کرتا ہے بلکہ شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، کتابوں کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہورہا ہے۔ اگر ہم سب اجتماعی کوشش کریں اور لوگوں میں مطالعے کا شوق پیدا کردیں توعلم دوست افراد کے لئے کتابوں کی کمی نہیں۔
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ کتابوں کا شوق سکول سے ہی شروع ہوتا ہے۔
ReplyDeleteآپ کی بات بالکل درست ہے۔ کتابوں کا شوق سکول سے ہی شروع ہوتا ہے۔
ReplyDeleteجناب کیا آجکل ایک دوسرے کو بذریعہ ڈاک خطوط نہ لکھنے پر المیہ ہو جاتا ہے؟ :lol:
ReplyDeleteجب ای میل جیسی سہولت موجود ہے تو پھر کیوں ڈاک کا خرچہ نیز وقت کو برباد کیا جائے؟
یہی حال کتب بینی کا ہے۔ ٹیکسٹ بورڈز کی کتابیں سالوں بعد اپڈیٹس ہوتی ہیں جب کہ سائنسی بلاگ لمحہ با لمحہ نئی و جدید انفارمیشن کیساتھ مفت میں اپڈیٹ ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کاغذی دنیا میں واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں تک سوال ہے کہ کہ مغرب میں کتب کے مطالعہ میں کمی نہیںآئی ہے، سراسر جھوٹ پر مبنی خبر ہے۔ یہاں پر تو صدیوں پرانے اخبارات اور پبلشنگ ہاؤسز ٹھپ ہو گئے ہیں کیونکہ اب ہر کوئی اپنی کتاب نیٹ پر چھاپ رہا ہے۔ یہاں تک کہ دنیائے ویب کے سب سے بڑے کتب خانے amazon.com نے جلد ہی ای بک سائٹ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہاں البتہ یورپ میں فکشنل رومان و کہانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔۔۔ اور اسکی اہم وجہ یہاں کے لوگوں کا انٹرٹینمنٹ سے بے حد لگاؤ ہونا ہے! :shock:
جناب کیا آجکل ایک دوسرے کو بذریعہ ڈاک خطوط نہ لکھنے پر المیہ ہو جاتا ہے؟ :lol:
ReplyDeleteجب ای میل جیسی سہولت موجود ہے تو پھر کیوں ڈاک کا خرچہ نیز وقت کو برباد کیا جائے؟
یہی حال کتب بینی کا ہے۔ ٹیکسٹ بورڈز کی کتابیں سالوں بعد اپڈیٹس ہوتی ہیں جب کہ سائنسی بلاگ لمحہ با لمحہ نئی و جدید انفارمیشن کیساتھ مفت میں اپڈیٹ ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کاغذی دنیا میں واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں تک سوال ہے کہ کہ مغرب میں کتب کے مطالعہ میں کمی نہیںآئی ہے، سراسر جھوٹ پر مبنی خبر ہے۔ یہاں پر تو صدیوں پرانے اخبارات اور پبلشنگ ہاؤسز ٹھپ ہو گئے ہیں کیونکہ اب ہر کوئی اپنی کتاب نیٹ پر چھاپ رہا ہے۔ یہاں تک کہ دنیائے ویب کے سب سے بڑے کتب خانے amazon.com نے جلد ہی ای بک سائٹ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہاں البتہ یورپ میں فکشنل رومان و کہانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔۔۔ اور اسکی اہم وجہ یہاں کے لوگوں کا انٹرٹینمنٹ سے بے حد لگاؤ ہونا ہے! :shock:
Asalam o alikum to all urdu blogers
ReplyDeletesab se pehlay bari mazrat k meary pas urdu kebord nhi aur hi urdu typing ka koe tajraba hai.
lekin ap blog ko visit karnay k bad mojay beinteha khoshi hoe k koe to hai jo apni zaban par kam kar raha hai.
me ap ko aur ap ki pori team ko aur ap k tamam users ko salam paysh karta hoon .
well dan n keep it up.
ap log urdu ki taraki me jo kirdar ada kar rahay hain wo kabil e tehsin he.
q k jo kom apni zaban ko bholi wo kom taraki na kar saki.
aur jis kom ne apni zaban aur apni sakafat par kaem rahi sirf wo komay hi taraki kar paen.
misal k toor par china , japan germane ، bartaniya , France , rashya , israil hi taraki kar paen .
en tamam taraki yafta momalik me sirf aik bat hi moshtrik he k en ka nisabi aur gernisabi sarkari aur gayr sarki tamam nizam en ki apni zaban me hi hai.
dunya me koe molk aysa nhi jis ne apni gayr madri zaban me kabilay kadar tarki ki ho.
hum b agalay 100 sal taraki nhi kar sakain gay jab tak k him urdu ko apnay molk me mokamal nafiz na kar dain.
aik bar phir ap sab ko salam paysh karta hoon es omed k sat k ap aur zeyada mehnat aur lagan se apne blog aur urdu ki taraki me apna kirdar ada karain gay
Asalam o alikum to all urdu blogers
ReplyDeletesab se pehlay bari mazrat k meary pas urdu kebord nhi aur hi urdu typing ka koe tajraba hai.
lekin ap blog ko visit karnay k bad mojay beinteha khoshi hoe k koe to hai jo apni zaban par kam kar raha hai.
me ap ko aur ap ki pori team ko aur ap k tamam users ko salam paysh karta hoon .
well dan n keep it up.
ap log urdu ki taraki me jo kirdar ada kar rahay hain wo kabil e tehsin he.
q k jo kom apni zaban ko bholi wo kom taraki na kar saki.
aur jis kom ne apni zaban aur apni sakafat par kaem rahi sirf wo komay hi taraki kar paen.
misal k toor par china , japan germane ، bartaniya , France , rashya , israil hi taraki kar paen .
en tamam taraki yafta momalik me sirf aik bat hi moshtrik he k en ka nisabi aur gernisabi sarkari aur gayr sarki tamam nizam en ki apni zaban me hi hai.
dunya me koe molk aysa nhi jis ne apni gayr madri zaban me kabilay kadar tarki ki ho.
hum b agalay 100 sal taraki nhi kar sakain gay jab tak k him urdu ko apnay molk me mokamal nafiz na kar dain.
aik bar phir ap sab ko salam paysh karta hoon es omed k sat k ap aur zeyada mehnat aur lagan se apne blog aur urdu ki taraki me apna kirdar ada karain gay
ہمارے ملک کبض بھی کتب بینی کے معاملے میں قابل رشک نہیں رہا۔ اسکا اندازہ ملک میں موجود لاءبریریوں کی تعداد ااور سالانلہ چھپنے والی غیر درسی کتابوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ نے مغرب کی مثال دی ہے وہان بچوں کو بچپن سے یعنی پانچ چھ مہینے کی عمر سے ہی کتاب سے محبت کی عادت متعارف کرائ جاتی ہے۔ اسکولوں میں باقاعدہ لائبریری کا ایک پئریڈ ہوتا ہے اور ہر کورس مین بچوں کو درسی کتابوً کے علاوہ غیر درسی کتب کی ایک خاص تعداد کو بھی پڑھ کر ختم کرنا ہوتی ہیں۔
ReplyDeleteاسکے مقابلے میں ہمارے ہیاں طلبائ بمشکل درسی کتابیں پڑھ پاتے ہیں۔ غیر درسی کتابیں پڑھنا وقت اور پیسے کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں گنتی کے لوگ ہونگے جو کتابیں خریدنے پر پیسے خرچ کرنا پسند کرتے ہونگے۔ اسکے بجائے لوگ نئے ماڈل کا موبائل فون لینا پسند کریں گے۔ اور ہمارایہ حال کسی ٹیکنالوجی کے آنے سے پہلے سے ایسا ہے۔ اسکی وجہ ہمارا علم سے محبت نہ رکھنا ہے۔
ہمارے ملک کبض بھی کتب بینی کے معاملے میں قابل رشک نہیں رہا۔ اسکا اندازہ ملک میں موجود لاءبریریوں کی تعداد ااور سالانلہ چھپنے والی غیر درسی کتابوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ نے مغرب کی مثال دی ہے وہان بچوں کو بچپن سے یعنی پانچ چھ مہینے کی عمر سے ہی کتاب سے محبت کی عادت متعارف کرائ جاتی ہے۔ اسکولوں میں باقاعدہ لائبریری کا ایک پئریڈ ہوتا ہے اور ہر کورس مین بچوں کو درسی کتابوً کے علاوہ غیر درسی کتب کی ایک خاص تعداد کو بھی پڑھ کر ختم کرنا ہوتی ہیں۔
ReplyDeleteاسکے مقابلے میں ہمارے ہیاں طلبائ بمشکل درسی کتابیں پڑھ پاتے ہیں۔ غیر درسی کتابیں پڑھنا وقت اور پیسے کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں گنتی کے لوگ ہونگے جو کتابیں خریدنے پر پیسے خرچ کرنا پسند کرتے ہونگے۔ اسکے بجائے لوگ نئے ماڈل کا موبائل فون لینا پسند کریں گے۔ اور ہمارایہ حال کسی ٹیکنالوجی کے آنے سے پہلے سے ایسا ہے۔ اسکی وجہ ہمارا علم سے محبت نہ رکھنا ہے۔
آج کل وقت نہیں
ReplyDeleteپھر جو وقت بچتا ہے وہ کمپیوٹر کی نظر
بس جی ہم بھی ہو گئے ہہیں کتابوں سے دور
آج کل وقت نہیں
ReplyDeleteپھر جو وقت بچتا ہے وہ کمپیوٹر کی نظر
بس جی ہم بھی ہو گئے ہہیں کتابوں سے دور
آج کل وقت نہیں
ReplyDeleteپھر جو وقت بچتا ہے وہ کمپیوٹر کی نظر
بس جی ہم بھی ہو گئے ہہیں کتابوں سے دور
آج کل وقت نہیں
ReplyDeleteپھر جو وقت بچتا ہے وہ کمپیوٹر کی نظر
بس جی ہم بھی ہو گئے ہہیں کتابوں سے دور
انیقہ نے جو کہا سچ کہا :sad:
ReplyDeleteانیقہ نے جو کہا سچ کہا :sad:
ReplyDelete