الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علٰی سیدالانبیاء والمرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط
ہرنی کا بچہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک اعرابی نے بارگاہ رسالت (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) میں حاضر ہو کر ایک ننھا منا پیارا سا ہرنی کا بچہ نذر کیا۔ اتنے میں شہزادہ حسن ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) حاضر خدمت ہوئے۔ یہ ابھی مدنی منے تھے۔ ہرنی کا بچہ اٹھا کر لے گئے۔ جب ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ حسین ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے دیکھا تو پوچھا، بھیا! کہاں سے لائے ؟ کہہ دیا، نانا جان (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نے دیا ہے۔ لٰہذا آپ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بھی حاضر ہوئے اور ہرنی کا بچہ طلب کیا، بہت کچھ بہلایا مگر نہ مانے قریب تھا کہ شہزادہ حسین ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رو پڑیں، اتنے میں ایک ہرنی اپنے ساتھ اپنا ننھا منا ہرنی کا بچہ لے کر بارگاہ رسالت (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، یارسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )! میرا ایک بچہ اس اعرابی کے ذریعہ آ گیا اور دوسرا بحکم خداوندی عزوجل میں خود لے کر حاضر ہوئی ہوں کہ شہزادہ حسین ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) اس کو مانگ رہے تھے اگر وہ رو پڑتے تو فرشتگان عرش کے دل ہل جاتے۔
( اوراق غم بحوالہ کنز الغرائب)
رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہ حسن و عشق
دل کون توڑے؟
ایک بار دونوں شہزادے حسن اور شہزادہ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے تختیاں لکھیں اور حضرت مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت سراپا شفقت میں حاضر ہو کر عرض کی، بابا جان! بتائیے دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے ؟ مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے سوچا کہ اگر ایک کا خط اچھا کہوں گا تو دوسرے کا دل ٹوٹے گا۔ لٰہذا فرمایا، اپنی امی جان سے جا کر پوچھ لو۔ چنانچہ دونوں شہزادے سیدہ خاتون جنت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی خدمت سراپا الفت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے بھی یہی سوچ کر فرمایا، ناناجان ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے پوچھو۔ بارگاہ رسالت ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) میں حاضر ہوئے تو سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نے فرمایا، اس کا فیصلہ جبرائیل علیہ السلام کریں گے۔ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آ گئے اور بحکم خداوندی عزوجل جنت سے ایک سیب لائے اور طے پایا کہ تختیاں رکھ کر سیب پھینکا جائے گا جس کی تختی پر سیب گرے گا اس کا خط عمدہ ہو گا۔ جب جبرائیل علیہ السلام نے سیب پھینکا تو وہ دو ٹکڑے ہو گیا۔ آدھا سیب شہزادہ حسن ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی تختی پر گرا اور آدھا شہزادہ حسین ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی تختی پر۔
جامع المعجزات) )
ایک روز تاجدار مدینہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ہمراہ ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ ایک مقام پر دیکھا کہ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نے ایک بچے کو گود میں اٹھا کر بہت پیار کیا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی، یارسول اللہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )! اس بچے پر خصوصیت کے ساتھ اتنی شفقت کیوں ؟ فرمایا، ایک بار میں نے اس کو میرے لخت جگر ( حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے قدموں کے نیچے کی خاک آنکھوں میں ڈالتے دیکھا تھا اس دن سے مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں قیامت کے روز اس کی اور اس کے والدین کی شفاعت کروں گا۔
سرخ مٹی
( بہیقی)
کٹا کر گردنیں، دکھلا گئے کربلا والے
ReplyDeleteکبھی بندے کے آگے جھک نہیں سکتے خدا والے
نہ زیاد کا وہ ستم رہا، نہ یزید کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا، جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
وہ شہزادے نہیں تھے ان جیسی برگزیدہ ہستیوں کو شہزادہ کہہ کر ان کی توہین نہ کیجیئےوہ اللہ کے مومن بندے تھے اور اللہ کے سپاہی تھے،رضی اللہ عنہ
ReplyDeleteکاش ہم انکا ماتم کرنے کے بجائے ان کے اعمال اور افعال کو اپنے کردار کا نمونہ بنالیں تو یہ ان ہستیوں کے لیئے روز محشر فخر کا باعث ہوگا!
عبداللہ شاہ زادے کا مطلب ہے شاہ کے بیٹے۔ تو تاجدارحرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد شاہزادے ہی کہلائے گی۔ ان کے سوا تو یہ کسی اور پر جچتا ہی نہیں۔
ReplyDeleteما شاء اللہ
ReplyDeleteکیا خوب تحریر لکھی ہے
اللہ جزا دے گا
ماتم کرنے والوں کی حقیقت کو جاننے کے لئے یہ لنک دیکھئے اور سننے ماتم
کرنے والے ہیں کون
ہم جو نہیں جانتے اسلام کے بارے میں وہ جاننا لازم ہے کہ اصل حقیقت آخر ہے کیا