Monday, October 5, 2009

16 comments:

  1. اگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا

    ReplyDelete
  2. اگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا

    ReplyDelete
  3. ایک بات ہے ۔ آپ ایسے ایسے اخبارات سے خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جو میں نے کبھی دیکھے نہیں

    ReplyDelete
  4. ایک بات ہے ۔ آپ ایسے ایسے اخبارات سے خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جو میں نے کبھی دیکھے نہیں

    ReplyDelete
  5. اللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے
    جس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،

    ReplyDelete
  6. اللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے
    جس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،

    ReplyDelete
  7. بھا ئی یہ اخبار پورے سندھ میں ملتاہے۔

    ReplyDelete
  8. بھا ئی یہ اخبار پورے سندھ میں ملتاہے۔

    ReplyDelete
  9. ایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سے‌آوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔

    ہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔

    اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔

    ReplyDelete
  10. ایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سے‌آوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔

    ہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔

    اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔

    ReplyDelete
  11. دین و اسلام کا تماشہ بنا دیا ہے

    ReplyDelete
  12. دین و اسلام کا تماشہ بنا دیا ہے

    ReplyDelete