اگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا
اگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا
اللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے جس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،
اللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے جس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،
ایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سےآوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔
اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
ایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سےآوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔
اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
اگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا
ReplyDeleteاگر کوئی زندہ دفن کیا گیا ہے تو آوازیں آ سکتی ہیں ۔ باقی سب فرضی کہانیاں ہیں ۔ لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سینکڑوں بیگناہ کمسن بچیوں کو جلا کر شہید کرنے والے تو ہٹے کٹے ہیں انہیں فالج تو کیا تھوڑا سا بخار بھی شاید نہیں چڑھا
ReplyDeleteایک بات ہے ۔ آپ ایسے ایسے اخبارات سے خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جو میں نے کبھی دیکھے نہیں
ReplyDeleteایک بات ہے ۔ آپ ایسے ایسے اخبارات سے خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جو میں نے کبھی دیکھے نہیں
ReplyDeleteاستغفر اللہ
ReplyDeleteاستغفر اللہ
ReplyDeleteاللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے
ReplyDeleteجس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،
اللہ جانے اس میں حقیقت کتنی ہے
ReplyDeleteجس نے 25 یا 30 لوگوں کو مارا ہے اس کی قبر سے تو آوازیں آرہی ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو ہولناک سزائیں دیتے ہیں ان کی قبروں کو آگ لگے تو میرے دل میں ٹھنڈ پڑے گی،
بھا ئی یہ اخبار پورے سندھ میں ملتاہے۔
ReplyDeleteبھا ئی یہ اخبار پورے سندھ میں ملتاہے۔
ReplyDeleteایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سےآوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔
ReplyDeleteہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔
اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
ایسا نہیں ہوتا ۔ قبروں سےآوازیں نہیں آیا کرتیں۔ اسطرح کی باتیں اسطرح کے اخبارات اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئیے کرتے رہتے ہیں۔
ReplyDeleteہمیں صرف اسی بات پہ شیر محمد قصاب نامی دہشت گرد کی قتل و غارت کی مذمت کرنے چاہئیے کہ اس نے پچیس افراد کے گردنیں کاٹیں۔ اسلئیے نہیں کہ اس کی قبر سے کسی مبینہ عذاب کی آوازیں آتی ہیں۔ شنیدا ہے کہ مولوی فضل اللہ وغیرہ بھی اسی طرح کی باتوں کو ابھار کر اپنے پیروکارؤں کا عام مسلمانوں کے قتل کے لئیے تیار کرتے تھے۔ ہماری کج فہم رویوں کی ایک وجہ اس طرح کی جہالت بھی ہے جو اس اخبار نے خبر کی صورت میں لگا کر عام آدمی کی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہوئے کی ہے۔
اگر ظلم کے نتیجے میں لوگوں کو لازمی طور پہ فالج ہوتا تو مشرف دور میں لال مسجد و جامعہ حفصہ اور دیگر بھیانک مظالم کے ذمہ داروں کو تو اب تک کوڑھی ہو گیا ہونا چاہئیے تھا۔ یہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسے کس وقت سزا دینی ہے اور کس کی رسی کب تک ڈھیلی رکھنی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ظالم کوسزا ملتی ضرور ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
دین و اسلام کا تماشہ بنا دیا ہے
ReplyDeleteدین و اسلام کا تماشہ بنا دیا ہے
ReplyDeleteاچھی کہانی ہے۔
ReplyDeleteاچھی کہانی ہے۔
ReplyDelete