یہ تجاویز قوم کے خیرخواہ حکمرانوں کیلیے ہیں،، مفاد پرست،، خودغرض اور ہر حکومت کا ساتھ دینے والوں کیلیے نہیںہیں۔ جب ملک ہی غریب ہو اور اس پر حکمران لالچی اور بے شرم ہوں تو پھر کسی امداد کی امید رکھنا بیوقوفی ہی ہو گی۔
السلام علیکم۔ بہت عرصہ پہلے جب میں چھوٹا تھا اور رسالہ "آنکھ مچولی" جناب نعیم احمد بلوچ کی نگرانی میں چلتا تھا تو اس میں ایک قصہ پڑھا تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دکان کو آگ لگ گئی۔ سارا سامان جل گیا۔ دکان کے مالک کی مالی حالت کافی بری ہو گئی۔ لیکن وہ کوئی ہمت ہارنے والا شخص نہیں تھا۔ اس نے اس مصیبت پر ہمت ہارنے کے بجائے اس میں سے باہر نکلنے کا راستہ سوچا۔ اس نے یوں کیا کہ دکان کو نئے سرے سے شروع کیا اور باہر بورڈ لگا دیا کہ "یقین کیجیے، یہ شہر کی واحد دکان ہے جہاں صرف اور صرف تازہ مال موجود ہے۔" کچھ ہی دنوں میں گاہکوں کی بھیڑ لگ گئی کیونکہ ان سب کو معلوم تھا کہ آگ میں اس دکان کا تمام سامان جل چکا ہے اور اب اس میں جو مال ہے، وہ واقعی تازہ ہی ہے۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں اس دکان دار نے تھوڑی سی ہمت اور عقل کے استعمال سے نہ صرف اپنا نقصان پورا کر لیا بلکہ اپنا کاروبار بھی پہلے سے کہیں بہتر بنا لیا۔ اس میں تمام متاثرہ دکان داروں کے لیے ایک سبق ہے کہ جو ظلم ان کے ساتھ ہوا ہے، اس پر ہمت نہ ہاریں بلکہ اس میں نئے مواقع تلاش کریں۔ اور اللہ سے مدد مانگنا تو لازمی ہے ہی۔ اگر ایسا کریں گے تو مجھے تو قوی امید ہے کہ انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی۔ اور ساتھ ہی میں اس علاقے کے آس پاس رہنے والے تمام خریداروں سے بھی گزارش کروں گا کہ ان کی ضرورت کا جو سامان متاثرہ دکان داروں کے پاس ملتا ہے، وہ وہیں سے خریدیں کیونکہ ان دکانوں میں صرف اور صرف تازہ مال ہی ہوگا۔ :)
یہ تجاویز قوم کے خیرخواہ حکمرانوں کیلیے ہیں،، مفاد پرست،، خودغرض اور ہر حکومت کا ساتھ دینے والوں کیلیے نہیںہیں۔ جب ملک ہی غریب ہو اور اس پر حکمران لالچی اور بے شرم ہوں تو پھر کسی امداد کی امید رکھنا بیوقوفی ہی ہو گی۔
ReplyDeleteاچھی تجاویز ہیں مگر بات تو عمل کی ہے
ReplyDeleteالسلام علیکم۔
ReplyDeleteبہت عرصہ پہلے جب میں چھوٹا تھا اور رسالہ "آنکھ مچولی" جناب نعیم احمد بلوچ کی نگرانی میں چلتا تھا تو اس میں ایک قصہ پڑھا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دکان کو آگ لگ گئی۔ سارا سامان جل گیا۔ دکان کے مالک کی مالی حالت کافی بری ہو گئی۔ لیکن وہ کوئی ہمت ہارنے والا شخص نہیں تھا۔ اس نے اس مصیبت پر ہمت ہارنے کے بجائے اس میں سے باہر نکلنے کا راستہ سوچا۔ اس نے یوں کیا کہ دکان کو نئے سرے سے شروع کیا اور باہر بورڈ لگا دیا کہ "یقین کیجیے، یہ شہر کی واحد دکان ہے جہاں صرف اور صرف تازہ مال موجود ہے۔" کچھ ہی دنوں میں گاہکوں کی بھیڑ لگ گئی کیونکہ ان سب کو معلوم تھا کہ آگ میں اس دکان کا تمام سامان جل چکا ہے اور اب اس میں جو مال ہے، وہ واقعی تازہ ہی ہے۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں اس دکان دار نے تھوڑی سی ہمت اور عقل کے استعمال سے نہ صرف اپنا نقصان پورا کر لیا بلکہ اپنا کاروبار بھی پہلے سے کہیں بہتر بنا لیا۔
اس میں تمام متاثرہ دکان داروں کے لیے ایک سبق ہے کہ جو ظلم ان کے ساتھ ہوا ہے، اس پر ہمت نہ ہاریں بلکہ اس میں نئے مواقع تلاش کریں۔ اور اللہ سے مدد مانگنا تو لازمی ہے ہی۔ اگر ایسا کریں گے تو مجھے تو قوی امید ہے کہ انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی۔
اور ساتھ ہی میں اس علاقے کے آس پاس رہنے والے تمام خریداروں سے بھی گزارش کروں گا کہ ان کی ضرورت کا جو سامان متاثرہ دکان داروں کے پاس ملتا ہے، وہ وہیں سے خریدیں کیونکہ ان دکانوں میں صرف اور صرف تازہ مال ہی ہوگا۔ :)