ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت اپنے بیٹے کے ساتھ پارک میں بیٹھی ہو ئی تھی۔
پاس ہی ایک کوا بھی بیٹھا تھا۔
ماں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔
ماں نے کچھ دیر بعد پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔
ماں نے پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا غصے سے بولا کہ کتنی بار بتاؤں کہ یہ کوا ہے۔
ماں ہنسی اور بولی کہ بیٹا جب تو تین سال کا تھا تو یہی جگہ تھی اورایسا ہی کوا پاس بیٹھا ہواتھااور تم نے چالیس بار پوچھا تھا اور میں نے چالیس دفعہ تمہارے ماتھا چوم کر بتایا تھا کہ یہ کوا ہے۔
"ایک خاموش میسج"
اپنی ماں سے ہمیشہ پیار کرو اگر یہ ہستی کھو گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی۔
پاس ہی ایک کوا بھی بیٹھا تھا۔
ماں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔
ماں نے کچھ دیر بعد پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔
ماں نے پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا غصے سے بولا کہ کتنی بار بتاؤں کہ یہ کوا ہے۔
ماں ہنسی اور بولی کہ بیٹا جب تو تین سال کا تھا تو یہی جگہ تھی اورایسا ہی کوا پاس بیٹھا ہواتھااور تم نے چالیس بار پوچھا تھا اور میں نے چالیس دفعہ تمہارے ماتھا چوم کر بتایا تھا کہ یہ کوا ہے۔
"ایک خاموش میسج"
اپنی ماں سے ہمیشہ پیار کرو اگر یہ ہستی کھو گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی۔
جو کام آپ بتا رہے ہیں آدھی صدی قبل بھی مُشکل تھا مگر اب تو بہت ہی مُشکل ہے ۔ عصرِ حاضر میں تو بچے والدین کو کہتے ہیں "آپ کو کیا معلوم ۔ آپ کو کچھ معلوم نہیں"
ReplyDeleteکوئی چھ دہائیاں پیچھے میں ٹرین پر راولپنڈی سے سوار ہوا ۔ میرے قریب ایک بزرگ بیٹھے تھے ساتھ اُن کے اُن کا تین چار سالہ پوتا تھا ۔ جو وہ راولپنڈی سے جہلم تک متواتر دادا سے پوچھتا رہا "یہ کیا ہے ؟" ۔ اور وہ بزرگ مُسکرا کر اُسے بتاتے رہے ۔ جہلم گذرنے کے بعد بچہ سو گیا تو میں نے اُن بزرگ سے کہا "آپ کمال حِلم اور حوصلہ رکھتے ہیں"۔ وہ ہنس کر کہنے لگے "بچہ ہے"
سارے بلاگ يکے بعد ديگرے نصيحتوں کی پنڈيں کھول رہے ہيں ميں نے تو اماں کی نصيحتوں سے مسے مسے جان چھڑائی ہے اب آپ نے اماں کا رول سنبھال ليا ہے
ReplyDeleteاللہ ہمیں اپنے ماں باپ کی فرما برداری اور ہماری اولاد کو بھی فرما برداری عطا فرمائے
ReplyDeleteآمین