Thursday, July 28, 2011

سرفروشی کی تمنا اور بسمل شاہجہانپوری

 ایک غزل کا مطلع مشہور ہے۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے

عام طور پر یہ مولانا ظفر علی خان (1873ءتا1956ء) کےنام سےمشہور ہے لیکن یہ مطلع ایک گمنام شاعر بسمل شاہجہانپوری کاہے۔ بسمل شاہجہانپوری نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنھبالنے کے بعد دل ودماغ میں یہی تڑپ تھی کہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہونا چاہیے۔ 1916ء میں ان کا رابطہ انہی خیالات کے حامل ایک اور نوجوانوں کے گروہ سے ہوا۔1918ء میں "مین پوری"سازش کے اہم واقعہ میں بسمل بھی شریک تھے 9اگست 1925ء کو انہوں نے کاکوری (لکھنو کا ایک مشہور قصبہ)ٹرین کی واردات میں حصہ لیا یہ سیاسی نوعیت کی واردات تھی۔ گرفتار ہوئے، مقدمہ چلتا رہاآخر19دسمبر1927ءکوبسمل شاہجہانپوری کو سزاموت دے دی گئی۔

Tuesday, July 26, 2011

پچاس ارب روپے


پی پی حکومت 50 ارب روپے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کررہی ہے. اس سے لوگوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں. بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام سےامید تھی کہ اس مستحق بیوہ عورتوں کو جو اسکی ہر شرئط پر پوری اترتی ہیں، تھوڑی ہی سہی مگر کچھ مالی مدد ملے گی

Monday, July 25, 2011

غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں

پاکستان میں رمضان مبارک کا چاند نظر آنے والا ہے۔ اور رویت ہلال پر صوبہ خیبر پختون خواہ کے "شرانگیز" مولویوں کی دکانیں کھلنے والی ہیں۔ پشاور کی مسجد قاسم علی خان غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کا مرکز ہے۔ چاند کی زیادہ فکر مسجد قاسم علی خان کے مولوی شہاب الدین پوپلزئی کو ہوتی ہے جوصرف رمضان اور شوال کا چاند دیکھنے کا اہتمام کرتا ہے اورصرف رمضان اور شوال کے چاند کے لیے اپنی دوکان کھول لیتا ہے۔ کیوں کہ جو "نام نہاد" شہرت اور مشہوری رمضان اور شوال کے چاند کے لیے ملتی ہے وہ کسی اور مہینے میں نہیں ملتی۔

"نام نہاد" شہرت اورمشہوری حاصل کرنے کے لیے اگر امت مسلمہ میں شر، فتنہ، فساد اور تفرقہ پھیلانا پڑے تو کیا ہوا۔ اور کون ہے پوچھنےوالا ؟؟؟ غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیوں کے شر کو پھیلانے میں میڈیا کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ میڈیا بھی ان کو پروموٹ کر رہا ہے یا سستی شہرت کا متلاشی ہے۔

رویت ہلال کے لیے صوبہ خیبرپختون خواہ کے "نام نہاد" مولویوں کے آگےعلم نجوم، ماہرین فلکیات، محکمہ موسمیات، پاکستان نیوی، سپارکو والے بھی جھوٹے اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ ان اداروں کو حساس دوربینوں سے چاند نظر نہ آئے مگر شہاب الدین پوپلزئی اپنی آنکھوں سے چاند نظر آ جاتا ہے۔ 
صوبہ خیبرپختون خواہ کی سابقہ حکومتوں (متحدہ مجلس عمل اورعوامی نیشنل پارٹی) کے "بے عقل" وزیروں نے ان غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو بھرپور سپورٹ کیا اور امت مسلمہ میں شر، فتنہ، فساد اور تفرقہ پھیلانے کے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

مرکزی حکومت کو چاہیے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں قائم غیر سرکاری
 رویت ہلال کمیٹیوں کو فورا بند کروائے اوران کے کارندوں، ہمدردوں اور ان کی دکانیں سجانے والوں کو پابند سلاسل کرے ۔

Wednesday, July 20, 2011

ادھورے سپنے – آٹھویں قسط

اس پوسٹ کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں

گڈو کی لاش اگرچہ شام سے گھر میں پڑی ہے لیکن ماں کو اب بھی یقین نہیں آرہا کہ ننھا گڈو اُسے ہمیشہ ہمیشہ  کیلئے چھوڑ کر جا چکا ہے ۔۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی ہے اور روتے ہوئے ننھے گڈوکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور منہ کو بے تابی سے چومنے لگتی ہے۔۔۔۔لیکن ننھے گڈو پر ماں کے رونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔۔۔۔

Tuesday, July 19, 2011

بھوکے ننگے

29 جون1948ء کو چوہدری قادربخش مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک عجیب و غریب مقدمہ پیش ہوا اس مقدمے میں مہاجر کیمپ میں مقیم میاں بیوی پر سرکاری خیمے کا کچھ کپڑا کاٹنے کا الزام تھا۔ پولیس کی حراست میں اس جوڑے نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس کیمپ میں پچھلے پانچ ماہ سے مقیم ہیں ہمارے جسموں پر پہنے ہوئے کپڑے پرانے اور بوسیدہ ہوکر اس بری طرح پھٹ چکے تھے جس سے ہمارے جسم جگہ جگہ سے بری طرح ننگے ہو رہے تھے

Tuesday, July 12, 2011

کراچی، پختون، مہاجر اور زرداری

پختون فکری جرگہ کے چیئرمین امیرحمزہ مروت زندگی کے بہاروں کی نصف صدی کب کی مکمل کرچکے ہیں لیکن جذبے ان کے اب بھی جوان ہیں۔صاحب مطالعہ شخصیت ہیں اور بھرپور سیاسی زندگی گزاری۔خان عبدالولی خان کے قریبی ساتھی رہے، ان کی جماعت کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے ۔ یہ جماعت بدل گئی تو انہوں نے بدلنے سے انکار کیا اور 1995ء میں اسے خیر باد کہہ دیا البتہ جب تک یہاں رہے خان عبدالولی خان کے بااعتماد افراد کی صف میں رہے اور وہ سندھ سے متعلق اہم معاملات ان کے ذریعے نمٹاتے رہے۔ پچھلے دنوں میرے دفتر تشریف لائے ۔ سندھ کے ماضی اور حال پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔تاریخ کے صفحات الٹتے ہوئے انہوں نے بعض ایسے واقعات سنائے کہ جو عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی تھے۔

Sunday, July 10, 2011

کراچی میں پائیدار امن ہوگیا؟

ماضی قریب میں کراچی کئی بار بدامنی کا شکار بنتا رہا ہے، جب میڈیا حکومت کی توجہ بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کی جانب دلاتا ہے تو حکومت حرکت میں آتی ہے اور کچھ اقدامات کر کے عارضی طور پر صورتحال پر قابو پاتی ہے کچھ گرفتاریاں اور اسلحہ کی برآمدگی کے بعدپھر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگتی ہے۔ کچھ عرصے بعد پھر وہی قتل و غارت گری دوبارہ شروع ہو جاتی ہے اور حکومت اپنا آہنی ہاتھ دھونڈنے میں اتنا وقت لگا دیتی ہے کہ درجنوں بے گناہ شہری دہشت گردی کا شکار ہو کر رزق خاک بن جاتے ہیں اور عوام یہی سوچتی رہتی ہے کہ بے گناہ شہریوں کا خون ناحق کب تک بہتا رہے گا اور کب شہر کراچی کو مستقل امن میسر آئے گا؟