Monday, July 25, 2011

غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں

پاکستان میں رمضان مبارک کا چاند نظر آنے والا ہے۔ اور رویت ہلال پر صوبہ خیبر پختون خواہ کے "شرانگیز" مولویوں کی دکانیں کھلنے والی ہیں۔ پشاور کی مسجد قاسم علی خان غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کا مرکز ہے۔ چاند کی زیادہ فکر مسجد قاسم علی خان کے مولوی شہاب الدین پوپلزئی کو ہوتی ہے جوصرف رمضان اور شوال کا چاند دیکھنے کا اہتمام کرتا ہے اورصرف رمضان اور شوال کے چاند کے لیے اپنی دوکان کھول لیتا ہے۔ کیوں کہ جو "نام نہاد" شہرت اور مشہوری رمضان اور شوال کے چاند کے لیے ملتی ہے وہ کسی اور مہینے میں نہیں ملتی۔

"نام نہاد" شہرت اورمشہوری حاصل کرنے کے لیے اگر امت مسلمہ میں شر، فتنہ، فساد اور تفرقہ پھیلانا پڑے تو کیا ہوا۔ اور کون ہے پوچھنےوالا ؟؟؟ غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیوں کے شر کو پھیلانے میں میڈیا کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ میڈیا بھی ان کو پروموٹ کر رہا ہے یا سستی شہرت کا متلاشی ہے۔

رویت ہلال کے لیے صوبہ خیبرپختون خواہ کے "نام نہاد" مولویوں کے آگےعلم نجوم، ماہرین فلکیات، محکمہ موسمیات، پاکستان نیوی، سپارکو والے بھی جھوٹے اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ ان اداروں کو حساس دوربینوں سے چاند نظر نہ آئے مگر شہاب الدین پوپلزئی اپنی آنکھوں سے چاند نظر آ جاتا ہے۔ 
صوبہ خیبرپختون خواہ کی سابقہ حکومتوں (متحدہ مجلس عمل اورعوامی نیشنل پارٹی) کے "بے عقل" وزیروں نے ان غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو بھرپور سپورٹ کیا اور امت مسلمہ میں شر، فتنہ، فساد اور تفرقہ پھیلانے کے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

مرکزی حکومت کو چاہیے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں قائم غیر سرکاری
 رویت ہلال کمیٹیوں کو فورا بند کروائے اوران کے کارندوں، ہمدردوں اور ان کی دکانیں سجانے والوں کو پابند سلاسل کرے ۔

2 comments:

  1. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ سے اس قسم کے القابات کی امید نہیں تھی۔
    کم از کم مسجد قاسم علی خان کے ہلال کمیٹی کے بارئے میں کچھ تحقیق ہی کر لیتے تو شائد آپکا یہ کالم اس سطحی درجے کا نہ ہوتا۔

    اسلام ایک فطری مذہب ہے اور حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو عید کرو۔بلکہ آنکھوں سے چاند دیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔نیز یہ خالصتا ایک مذہبی معاملہ ہے ،سائینسی نہیں ،اسلئے ہم سائنس سے مسئلے کے حل میں مدد لے سکتے ہیں لیکن اسکو اصول کا درجہ نہیں دئے سکتے۔

    اصول وہی ہونگے جو کہ اصول بنانے والے نے بنائے ہیں جو کہ پیغمبر اسلام بذات خود ہیں۔

    اسلئے ہم سپارکو وغیرہ کی مدد لے سکتے ہیں لیکن سپارکو کو آسل کا درجہ نہیں دئے سکتے۔

    رہی بات گواہان کی تو جناب
    ایک طرف 20 یا 25 مختلف علاقوں کے افراد کہیں کہ ہم نے اس ٹائم اور اس حالت میں چاند دیکھا ہے۔ اور گواہ کو قانونی طور پر پرکھنے کا جو میزان ہے ،یہ گوہ اس پر بھی پورے اترتے ہیں۔ ان سے چاند کی پوری کیفیت معلوم کی جاتی ہے اور وہ صحیح پوزیشن بتاتے ہیں ۔

    دوسری طرف سپارکو کہے کہ چاند پیدا نہیں ہوا تو شرعی قوانین کے مطابق گواہ کی مانی جائے گی۔کیونکہ آلات کی گواہی صحیح انسان کی گواہی سے برتر نہیں

    اب جب وفاقی روئت ہلال کمیٹی ان گواہان کی بات تک نہ سُنے، یا کسی منسٹر کی ایک فون کال پر رمضان کو ایک دن لیٹ کردئے تو بھلا اسمیں نجی کمیٹی کا کیا قصور۔

    آپکی اطلاع کیلئے عرض کردوں کہ جس صوبہ میں بھی آپ ہیں تو اگر بندہ سورج غروب ہونے کے بعد روانہ ہوجائے تو بعض علاقے ایسے بھی ہونگے کہ وہ شائد رات دس بجے تک آپکے پاس پہنچ جائے۔لیکن اگر آپ مغرب کے ایک گھنٹہ بعد اُٹھ جائیں اور پھر مہمان کو کوسیں کہ آئے ہی نہیں ،تو اب غلطی کس کی ہے۔

    اور یہ غلطی کئی بار مرکزی رویت ہلال کر چکی ہے پختون خواہ کے گواہان کے ساتھ۔ بلکہ صوبہ خیبر کی جو صوبائی رویت ہلال کمیٹی ہے وہ بھی کئی بار اس غلطی پر مرکز کے ساتھ الجھ چکی ہے۔

    رہا یہ اعتراض کہ جناب یہ صوبہ خیبر والے سعودیہ کے پیروکار ہیں تو جناب من یہ الزام درست نہیں ،کیونکہ کئی بار مسجد قاسم علی خان سعودیہ سے رویت کے معاملے میں مخالفت کرچکی ہے۔

    مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جائے تو اسکی تلخی کم ہوتی ہے ورنہ وہ صرف تخریب برائے تخریب بن جاتی ہے ۔

    ReplyDelete
  2. آپکے بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے شدید کوفت ہوئی۔اسی سلسلے میں یہ ایک مضمون پیش خدمت ہے۔

    http://darveshkhurasani.wordpress.com/2013/02/21/786/

    ReplyDelete