Saturday, May 14, 2011

امریکہ، پاک فوج اور انڈیا

ایبٹ آباد میں امریکن ایکشن نے اس طرح بوکھلا دیا کہ اپنی فوج اور اپنی آئی ایس آئی پر ہی یلغارکردی۔ جس نے بجا طور پر کہا کہ ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی لیکن یہ انسانو ں پر مشتمل ایک ادارہ ہے جوخدا نہیں۔ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھانے والے یہ تو کہتے ہیں کہ امریکہ نے ہماری سرحدوں کااحترام نہیں کیا لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اُسامہ نے بھی تو ہماری سرحدوں کااحترام نہیں کیا۔ وہ دنیا کا مطلوب ترین شخص ہونے کے باوجود غیرقانونی اور خفیہ طور پر اس ملک کی حدود کے اندر موجود تھا اور اس کی یہ موجودگی مختلف مسائل میں گھرے اس ملک کوپوری عالمی برادری میں خجل کرگئی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ کوئی عام معصوم پاکستانی ”برادر“ اسلامی ملک سعودی عرب میں غیرقانونی طور پر مقیم ہو اور وہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ لیکن حقیقت پسندی اور دلیل کے ساتھ تو ہماری پرانی دشمنی ہے۔

فوج اور آئی ایس آئی کے بارے بات اور وہ بھی ان حالات میں کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ فوجوں کی زندگی میں ”شب خون“ بھی ہوتے ہیں اورافواج سفاک ترین زمینی حقائق کو سامنے رکھ کرہی فیصلے کرتی ہیں کہ ان کے فیصلوں پر کروڑوں انسانوں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ فوج نہ افسانے لکھتی ہے نہ کالم نہ مصوری کرتی ہے نہ شاعری ورنہ غالب#، علامہ اقبال، فیض احمد فیض# فیلڈ مارشل ہوتے۔ فوج کے سامنے اس قسم کی ”فیکٹ شیٹ“ ہوتی ہے جس کا عام آدمی تو کیا اس کے خاص خاص جعلی ڈگری ہولڈر نمائندے تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایوب خان کی ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ سے لے کر پرویز مشرف کے نام نہاد ”یوٹرن“ اور”آج“ تک کی ”خاموشی“ میں بالغوں کے لئے بہت سے اشارے ہیں اور نپولین کا یہ جملہ کبھی نہ بھولو کہ فوجیں پیٹ کے بل چلتی ہیں یعنی عسکری قوت کے پیچھے مضبوط معیشت ضروری ہوتی ہے۔ پاکستانی فوج کو ایک خاص سچویشن کا سامنا ہے کہ اس کے پڑوس میں وہ بھارت ہے جس کی وزیراعظم نے کہا تھا کہ اس نے ہزار سال کی شکستوں کا بدلہ لے کر نظریہ ٴ پاکستان خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اور امریکہ تو ہر ملک کا پڑوسی ہے ہی۔ کیا یہ کم ہے کہ خود سے کئی گنا بڑے بھارت کے سامنے یہ فوج اور آئی ایس آئی دیوارِ چین بنی کھڑی ہے سو امریکہ کے ساتھ معاملہ کرتے وقت یہ سوچنا ہوگا کہ کون ہمارا کتنا اور اصل دشمن ہے اور کس کے ساتھ ہماری مخاصمت صدیوں پرمحیط ہے اور کون ہمارے لئے موذی ترین ثابت ہوسکتا ہے۔
آیئے ایک تاریخی حقیقت کو ”ہضم“ کرنے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ سے پہلے برطانیہ سپرپاور تھا جس میں کبھی سورج غروب نہ ہوتا تب برطانیہ کی ایک ڈاکٹرین تھی جسے اس وقت "Pax Britania" کہتے تھے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ پورے کرہ ٴ ارض پر اگر کوئی ایک برطانوی بھی کہیں کسی ظلم، زیادتی، جبر کا شکار ہوگا تو اس فرد ِ واحد کو پورا برطانیہ سمجھا جائے گا اور پورا برطانوی سسٹم اپنی تمام تر مائٹ کے ساتھ اس ایک برطانوی کو ظلم، زیادتی اورجبر کاشکار بنانے والے یا والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دے گا۔
وقت بدل چکا۔ آج وہی سٹیٹس امریکہ کو حاصل ہے اور امریکہ نے یہ سٹیٹس کسی وظیفے یا تعویذ سے حاصل نہیں کیا سو آج ان کی ڈاکٹرین ہے "Pax Americana" بالی بومبرز کے عبرتناک انجام سے لے کر ایمل کانسی، رمزی یوسف اور خالد شیخ کے انجام تک… ریمنڈ ڈیوس کی جیل اور اُسامہ بن لادن کی زندگی سے رہائی تک سب اسی "Pax Americana" کی جہنمی جھلکیاں ہیں۔ میں صحیح غلط، جھوٹ سچ، اچھے برے یا خیر وشر کی بات نہیں کررہا کہ کبھی مسلمانوں پر بھی وہ وقت تھا کہ سپرپاو ر تھے۔ حجاج بن یوسف، صالح ترین مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ اسے مسلمان سروں کی فصل کاٹنے کا بہت شوق تھا لیکن کسی غیرمسلم کے ہاتھوں مسلمان پر ظلم اس کے لئے ناقابل برداشت تھا کہ ہر سپرپاورکے لوگ ایسے ہی سوچتے ہیں۔ اسی لئے تو جب دریائے سندھ کے پانیوں میں بحری قزاقوں نے مسلمان مسافروں کو لوٹا تو ایک عورت نے حجاج کے نام کی دہائی دی۔ اس تک یہ خبر پہنچی تو بے قرار ہو کرپکار اٹھا… ”لبیک لبیک لبیک“ اور پھر محمد بن قاسم نے چند مسلمان بحری مسافروں کے لٹنے کی سندھ کے راجہ داہر کو ایسی سزا دی کہ دیبل سے ملتان تک روند کر رکھ دیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ چاہیں تو اسے "Pax Islamia" بھی کہہ سکتے ہیں۔
اپنی فوج اور آئی ایس آئی کے بارے ذہن اور زبان استعما ل کرتے وقت قدرت کی یہ ستم ظریفی ضرور سامنے رکھیں کہ ہمارے پڑوس میں ہندوستان نام کا ایک ملک ہے اور امریکہ تو دنیاکے ہر ملک کا پڑوسی ہے ہی۔ ہندوستان کی پوری کوشش اور شدید ترین خواہش ہوگی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاملات ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک چلے جائیں اورپھر وہ……
طاقت صرف بھارت کے لئے … باقی دنیا بالخصوص سپرپاور کے ساتھ ڈیل کرتے وقت تحمل، تدبر اور توازن کہ ہم جیسے کھچکے ہوئے، جہالت اور غربت زدہ ملک … منتشر، غیرمتحد، بے سمت، منقسم، جذباتی، غیرمنظم، افقی اور عمودی طور پرقسم قسم کے مکروہ خانوں اور ڈربوں میں بٹے ہوئے ملک ایک سے زیادہ محاذوں کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ غزوہ بدر سے پہلے حضرت بلال  پرہونے والے مظالم، بے سرو سامانی کی حالت میں حبشہ تک کا سفر اور پھر ہجرت عظیم ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور حکم یہ کہ مومن کی فراست سے ڈرو لیکن یہاں تو فکری نجاست کی چھابڑیوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔

1 comment:

  1. ميں حسن نثار کو اُن وقتوں ميں پڑھا کرتا تھا جب آپ شايد ابھی پڑھنا سيکھ رہے تھے ۔ ميں نے اسےپی پی پی کا جان نثار ہوتے ديکھا پھر نواز شريف کا پرستار ہوتے تديکھا پھر پرويز مشرف کا ثنا خواں ہوتے ديکھا ۔ بات صرف اتنی ہے طاقت جس کے پاس حسن نثار اس کے ساتھ

    آپ ہی بتايئے کہ مندرجہ ذيل فقرے ميں کتنی فراست ہے ؟
    چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھانے والے یہ تو کہتے ہیں کہ امریکہ نے ہماری سرحدوں کااحترام نہیں کیا لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اُسامہ نے بھی تو ہماری سرحدوں کااحترام نہیں کیا

    ReplyDelete