Sunday, October 23, 2011

دو سیاستدان ایک مستقبل

آج کل میڈیا عمران خان کو بہت پروموٹ کر رہا ہے اور خود عمران خان نے جب سے ایک سال قبل دھرنے دیئے تھے خود کو آنے والے وقت کا وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ مثال بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ وزیر اعظم ہوتے تو ایسا کرتے ویسا کرتے ایک ہاتھ سے وہ صدر زرداری کو للکارتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے وہ نوا ز شریف کی خبر لیتے ہیں۔ ایسی چٹ پٹی خبروں کو میڈیا والے خوب مزے لے کر اچھالتے ہیں تو عمران خان اور اُن کی پارٹی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی اگر وہ وزیر اعظم بن گئے
تو وہ دونوں پہلوانوں کو ایک ہی وار میں چت کر لیں گے۔ حالانکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار جن کا لقب کھگاتھا جو اپنے والد کی جعلی ڈگری کی وجہ سے نشست کھو بیٹھے تھے مسلم لیگ (ق) جس کو پی پی پی کی بھی پوری حمایت حاصل تھی ہرا کر دگنے ووٹوں سے کامیاب ہوئے اور تیسرے امیدوار جن کا تعلق تحریکِ انصاف یعنی عمران خان کی پارٹی سے تھا نہ صرف ہار گئے بلکہ اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے۔ پتہ نہیں عمران خان نے اس سے سبق حاصل کیا یا وہ ابھی تک اقتدار کے سہانے سپنے دیکھ رہے ہیں۔ اب جبکہ ہمارے سندھ کے روحانی پیشوا پیر پگارہ صاحب نے 22نومبر 2011ء تک سیاسی بساط کے الٹ جانے کی پیشگوئی کی ہے یار لوگ عمران خان کے پلڑے میں اقتدار ڈالنے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور بنگلہ دیش کی طرزِ انقلاب کی بھی پیشگوئی گزشتہ 2سال سے ہم سب سن سن کر حیران ہو رہے ہیں کہ ہر6ماہ بعد اس قسم کی ریڈی میڈ افواہ پھیلا کر حکمرانوں کو خبردار کر دیا جاتا ہے جس سے حکمران پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل رک جا تا ہے البتہ مسلم لیگ (ن) والے حسرت سے ان کی آنیاں جانیاں دیکھ کر مزید مایوس ہو جاتے ہیں ایسے میں مسلم لیگ (ق) والے حکومتی ٹرین میں سوار ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں توجے یو آئی والے اقتدار کی چلتی ٹرین سے اتر کر پچھتا رہے ہیں۔
راقم نے ماضی میں 10سال اصغر خان کی تحریک استقلال میں 1977ء سے 1986ء تک کئی اعلیٰ عہدوں پر وقت گزارا ہے اور اصغر خان کی سیاست کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ مجھے اصغر خان اور عمران خان کی سیاست میں بہت مماثلت نظر آتی ہے بہت سے ان دونوں حضرات کے فیصلے ایک ہی جیسے ہیں مثلاً جب جنرل ضیاء الحق نے پی پی پی کا تختہ الٹا تو اصغرخان نے ضیاء الحق کی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بھٹو صاحب کو مارشل لاء کا مورد ِالزام ٹھہرایا اور پھر بعد میں انہی اصغر خان نے اس وقت کے قومی اتحاد سے سب سے پہلے علیحدگی اختیار کر کے ضیاء الحق کے خلاف سیاست شروع کر دی ۔ عمران خان نے ایسا ہی کچھ کیا جب پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کا تختہ الٹا تو سب سے پہلے پرویز مشرف کی تعریفیں کرنے والوں میں عمران خان سب سے آگے تھے وہ بھی پرویز مشرف کے وزیر اعظم کے امیدوار تھے مگر جب پرویز مشرف نے ان کو لفٹ نہیں دی تو عمران خان نے پرویز مشرف کے خلاف ان کی پالیسیوں پر زبردست تنقید شروع کر دی اور ہر ایک ان کی نظر میں کرپٹ تھا وہ بھی اصغرخان کی طرح صرف ایک مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست سے کامیاب ہوئے اور پھر کبھی یا تو انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا یا پھر وہ ناکام ہوئے ۔یہ دونوں حضرات عوام میں کرپشن کے خلاف تقاریر کرنے میں شہرت رکھتے ہیں عوام ان کی باتوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر ووٹ جا کر انہی پرانے کھلاڑیوں کو دیتے ہیں جن کی پشت پناہی جاگیرداروں ، وڈیروں اور چوہدریوں کی ہوتی ہے۔ آج کل عمران خان نے سب سے پنگا لے رکھا ہے ہر صوبے کی بڑی جماعت کو وہ برا بھلا اور کرپٹ گردانتے ہیں، پرویز مشرف جو آج کل خود ساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں ان کو بھی عمران خان کرپٹ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے تو وہ اصغر خان کی طرح ازلی دشمن ہیں ، حالانکہ دونوں کو معلوم تھا کہ بغیر امریکہ کی آشیر باد کے یہاں ایک وزیر خارجہ بھی نہیں لگ سکتایہی وجہ ہے کہ نواز شریف بھی امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے 8سال اقتدار کھونے کے علاوہ جلاوطنی بھگت چکے ہیں۔ اگر آج بھی الیکشن ہوں تو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا ہی کانٹے کا مقابلہ ہو گا اصغر خان ساری زندگی سیاست میں گزار کر اپنے سخت فیصلوں کی وجہ سے آج گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسا کچھ عمران خان کی پارٹی کا بھی یہی مستقبل نظر آتا ہے۔ کرکٹ کی کپتانی، سیاسی کپتانی سے مختلف ہوتی ہے اس میں ایک طرف عوام کی خوشنودی ہے تو دوسری طرف سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اصغر خان نے بھی اکثر فیصلے غلط کئے تو کبھی وہ اقتدار کے پاس سے گزر گئے تو کبھی اقتدار ان کے پاس سے گزر گیا۔ کبھی وہ سیاسی الائنس بنانے میں جلدی کرتے تھے تو کبھی وہ الائنس سے نکلنے میں جلدی کر جاتے تھے بقول پیر پگارہ صاحب کے ، ان کی پارٹی میں نہ تحریک تھی نہ استقلال بالکل اسی طرح عمران خان کی پارٹی میں نہ تحریک ہے اور نہ انصاف ، کیونکہ جو لوگ بھی ان کو سیاست میں لائے تھے ان سے اختلاف کر کے وہ ایک ایک کر کے ان کی پارٹی سے نکل چکے ہیں اور جو رہ بھی گئے ہیں وہ ان میں سیاسی لچک نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔ اگر کوئی معجزہ ہو جائے تو وہ اقتدار میں آسکتے ہیں ووٹوں کی گنتی سے وہ اقتدار میں نہیں آسکتے ، البتہ باہر بیٹھ کر اصغرخان کی طرح میڈیا کی ضرورت وہ پوری کرتے رہیں گے ۔ عمران خان کو عوام ان کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر چندہ تو دے سکتے ہیں مگر ووٹ دینے میں ان کی رائے مختلف ہی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ جو نوٹ دیتی ہے وہ بدقسمتی سے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالتی اور جو ووٹ ڈالنے والے ہیں وہ نوٹ نہیں دیتے۔
تحریر: خلیل احمد نینی تال والا

1 comment:

  1. میرے خیال میں سیاستدانوں کو میدان میں کھلا چھوڑ دینا چاہئے جس کو ووٹ پڑیں وہ اچھے یا برے طریقے پانچ سال پورے کرے۔
    مگر ایسا ہوتا نہیں۔
    بیچ میں ایجنسیاں کود پڑتی ہیں۔
    اور یوں جمہوری عمل سبوتاژ ہوجاتا ہے

    ReplyDelete