Tuesday, June 15, 2010

کالاباغ ڈیم - ایک نئی امید

ایران سے کتنی ہی گیس درآمد کر لی جائے لیکن پاکستان کے آبی ذرائع کا نعم البدل کوئی نہیں۔ گیس اور تیل کہیں سے بھی درآمد کریں‘ قیمت زرمبادلہ میں ادا کرنا پڑے گی اور دونوں ذرائع سے پیدا ہونے والی گیس نہ کبھی سستی ہو سکے گی نہ عوام کومہنگائی کے بوجھ سے نجات ملے گی اور نہ ہی مسائل کی شکار حکومت زرمبادلہ کی کمی سے بچ سکے گی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ منتخب عوامی حکومت قائم ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے‘ مگر اس نے بجلی پیدا کرنے کے کسی بڑے منصوبے پر توجہ نہیں دی۔ جن پرانے منصوبوں کو مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ ان کی تعمیر میں بھی ہنگامی پیش رفت نہیں کی جا رہی۔ ابھی صرف فنڈز مخصوص کرنے کے اعلانات آ رہے ہیں۔ مگر حکومت کی مالی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ وعدے پورے نہیں کئے جا سکیں گے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر چوہدری پرویزالٰہی نے اپنی بجٹ تقریر میں کالاباغ ڈیم کی بند فائل کھولتے ہوئے وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر کے حوالے سے کہا کہ ”وزیرخزانہ نے بالکل درست فرمایا کہ دریاؤں پر سٹوریج بنانے کی ضرورت ہے لیکن وہ کالا باغ ڈیم کا نام لینے سے کیوں ڈرتے رہے؟ کالا باغ میں تو قدرت نے سٹوریج کے لئے بنی بنائی جگہ مہیا کر رکھی ہے۔ یہ میگا ڈیم صرف چار سال میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ آج اس کی تعمیر کا فیصلہ ہو جائے‘ تو یہ کام کل شروع ہو سکتا ہے۔ یہ ڈیم ہمیں نہ صرف ضرورت کے وقت پانی مہیا کرے گا بلکہ بجلی بھی پیدا کرے گا اور یہ اتنی سستی ہو گی کہ ہم بجلی کو مزید مہنگا کرنے کی بجائے کالا باغ ڈیم کی آمدنی کو دوسرے ذرائع کی بجلی میں شامل کر کے ریٹ کم کر سکتے ہیں۔“ چوہدری پرویزالٰہی نے اپنی اس تجویز کے حوالے سے اخبارنویسوں کے ساتھ ایک نشست میں کہا کہ ”میں تو یہاں تک پیش کش کرنے کے لئے تیار ہوں کہ کالاباغ ڈیم سے پنجاب کو اضافی پانی نہ دیا جائے۔ اس ڈیم سے نکلنے والے پانی کا کنٹرول بھی مشترکہ طور پر تینوں چھوٹے صوبوں کے سپرد کر دیا جائے۔“اس پیشکش کے بعد سندھ کے پاس اس ڈیم کے خلاف کوئی دلیل باقی نہیں رہ جاتی۔ ہمارے سندھی بھائی ڈیم سے پانی کا کنٹرول حاصل کر کے اپنے سارے خدشات دور کر سکتے ہیں۔ جہاں تک صوبہ سرحد کی سیاسی جماعت کے اعتراض کا تعلق ہے‘ اسے پہلے ہی نقشے میں ردوبدل کر کے دور کیا جا چکا ہے۔ اب صرف تصورات باقی رہ گئے ہیں۔ حقیقت میں خطرے کا وجود نہیں۔ کیونکہ پانی کے جس ذخیرے کو اے این پی کے رہنما خطرناک قرار دیتے تھے‘ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اس کے باوجود پانی کے ذخیرے کی بلندی کم کر کے وہ تصوراتی خدشات بھی ختم کر دیئے گئے ہیں‘ جن کو بنیاد بنا کر کالاباغ ڈیم پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔ بلوچستان کی تشویش آسانی سے دور کی جا سکتی ہے۔ وہ صرف پانی میں اپنا حصہ طلب کر رہا ہے۔ پانی کا نظام تینوں صوبوں کے مشترکہ کنٹرول میں آنے کے بعد بلوچستان کے لئے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں رہے گی۔ یہ ایک قومی منصوبے کی تکمیل کے لئے شاندار پیش کش ہے‘ جس پر جلد سیاسی مذاکرات شروع کر دینا چاہئیں۔
چوہدری پرویزالٰہی سے یہ سوال کیا گیا کہ ”پھر پنجاب کو یہ ڈیم بنانے سے کیا فائدہ ہو گا؟“ چوہدری پرویزالٰہی کا جواب تھا ”کالاباغ ڈیم کا سارا پانی دینے کے بعد بھی پنجاب خسارے میں نہیں رہے گا۔ جتنا پانی ہم لے رہے ہیں وہ تو ملتا ہی رہے گا۔ اس ڈیم کا فائدہ سارے صوبوں کو ہے۔ سندھ کو نہ صرف پانی اس کی ضرورت کے مطابق ملتا رہے گا بلکہ خشک سالی کے دنوں میں وہ سٹور کئے گئے پانی کو بوقت ضرورت حاصل کر سکے گا اور سیلاب کے وقت پانی کو ڈیم کی صلاحیت کے مطابق روک کر سیلاب سے ہونے والی تباہی میں کمی کی جا سکتی ہے۔ڈیم کا انتظام کرنے والے تینوں صوبے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ بھی کر سکیں گے کہ اس پانی سے کیا مزید فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ یہ ڈیم چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرے گا۔ ظاہر ہے اس کی رائیلٹی پنجاب کو ملے گی اور یہ صوبہ مزید ترقیاتی منصوبے شروع کر سکے گا۔ مگر میں اس آمدنی سے زیادہ ان فوائد کو ترجیح دیتا ہوں‘ جو پاکستان کو بجلی سے حاصل ہوں گے۔ یہ انتہائی سستی بجلی ہو گی‘ جس کی بچت کو تقسیم کر کے عوام اور صنعتوں کو سستی بجلی دی جا سکے گی۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔ہماری بجلی کی پیداوار میں رہنے والی کمی دو سے چار ہزار میگاواٹ تک ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی پیدوار شروع ہونے کے ساتھ ہی موجودہ ضروریات کے مطابق لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈیم میگا ہونے کے باوجود صرف چار سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔ اس کی تعمیر شروع کرنے کے لئے کسی ابتدائی تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس کی فزیبلٹی‘ اس کا ڈیزائن‘ اس کے تعمیراتی کام شروع کرنے کے لئے مطلوبہ افراسٹرکچر سب تیار ہیں۔ سیاسی فیصلہ ہوتے ہی‘ اس کی تعمیرشروع ہو سکتی ہے۔“ چوہدری پرویزالٰہی کی تجویز کو اگر سیاسی ضروریات اور تعصبات سے آزادہو کر دیکھا جائے‘ تو یہ انتہائی قابل عمل اور ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہے۔ اسے سیاسی اختلافات اور محاذ آرائی کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔چوہدری برادران مسلم لیگ (ن) کے سوا ملک کی تمام سیاسی قیادتوں سے عمدہ تعلقات رکھتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے قومی مسئلے پر اگر وہ سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع کر کے اپنی تجویز کے حق میں ڈیم کے مخالفین سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں‘ تو ہو سکتا ہے مثبت نتائج حاصل ہو جائیں۔ چوہدری صاحب کو اپنے ساتھ ماہرین کی ایک ٹیم بھی رکھنا چاہیے‘ جو سندھ اور سرحد کے نمائندوں اور ماہرین کو فنی تفصیلات کے ساتھ معلومات بہم پہنچائیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس رابطہ مہم کے نتیجے میں معترضین اپنے موقف پر نظرثانی کے لئے تیار ہو جائیں۔ مجھے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قومی افادیت کے حامل ایک منصوبے پر کئے گئے اعتراضات کو انا اور عزت کا مسئلہ بنا کر ملک کو اس سے محروم رکھنے پر اصرار کیا جائے۔

7 comments:

  1. لیکن کالا باغی ڈیم سے سندھ کے لوگوں‌کو ہی تو تحفظات ہیں،، اب سندھ کی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس ایشو سے سیاسی فائدے حاصل کرنے کی بجائے عوام کو قائل کریں کہ اس پراجیکٹ سے پورے ملک کو فائدہ ہے۔

    ReplyDelete
  2. جناب ۔ کالاباغ ڈيم کے خلاف اُس وقت کی اين اے پی جو اب اے اين پی ہے نے ايک من گھڑت اعتراض کيا تھا جس کی کچھ وضاحت آپ نے بھی کردی ہے ۔ اصل بات يہ ہے کہ سندھ دريا کا وہ حصہ جو صوبہ سرحد ميں ہے کے کچے کے علاقہ ميں جو لوگ سرکاری زمين پر رہتے ہيں ان پر عبدالولی خان کے خاندان کا کنٹرول ہے ۔ کالا باغ ڈيم بننے کی صورت ميں وہاں پانی آ جائے گا اور وہ لوگ وہاں سے کہيں اور نقل مکانی کر جائيں گے چنانچہ اس علاقہ میں اے اين پی کے ووٹ کم ہو جانے کے باعث اے اين پی کچھ نشستوں پر ہار جائے گی
    سندھ ميں کالا باغ ڈيم کی مخالفت صرف ايک نعرہ بنانا تھا جو کہ جی ايم سيّد نے لگايا تھا جو ہندوؤں کا خيرخواہ اور پاکستان کا دُشمن تھا ۔ جی ايم سيّد کے پيروکاروں کے ووٹ لينے کيلئے پيپلز پارٹی نے يہ نعرہ اپنايا اور آخر ميں پنجاب دشمنی ميں ايم کيو ايم نے بھی اسی نعرے کو اپنايا
    اے اين پی کو تو فائدہ ہوا مگر سندھ کو کالاباغ ڈيم نہ بننے سے بہت نقصان ہو چکا ہے اور مزيد ہو گا ۔ اس لحاظ سے اپنے آپ کو عوام دوست کہنے والی تينوں جماعتيں دراصل عوام دُشمن ہيں

    ReplyDelete
  3. السلا م علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    آج کی جنگ میں یہ خبرکےپارلیمنٹ میں کالاباغ ڈیم کےمنصوبےکوپس پشت ڈال دیاگیاپڑھ کردل خون کےآنسوروتاہےکہ خداراہمارےسیاستدانوں کوعقل دے دے۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  4. پنجاب کے حکمرانوں کی بدنیتی نے لوگوں کو اتنا باغی کردیا ہے کہ وہ دودھ کے جلے ہوئے اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں،
    اور انہیں یہی ڈر ہے کہ کالا باغ ڈیم بنوا کرپنجاب ان کی زمینوں کو بالکل ہی بنجر کردےگا اور سارے پانی پر خود قبضہ کرلےگا!

    ReplyDelete
  5. کچھ لوگ نام اللہ کا ليتے ہيں اور برملا جھوٹ بولتے ہيں ۔ پنجاب کے موجودہ حکمرانوں نے اپنا پانی کا حصہ پہلے سے منظور شدہ حصے سے کم کيا جس کا صلہ سندھ کے حکمرانوں نے يہ ديا ہے کہ نئے معاہدہ کے تحت بھی پنجاب کے حصے کا پانی اپنی پارٹی کی مرکزی حکومت کے ذريعہ بند کروا ديا

    ReplyDelete
  6. جناب سچ کے علم بردار، سنی سنائی کو آگے بڑھانے کی بیماری میں جناب مبتلا ہیں میں نہیں ،میں نے ٦٢ سالہ ماضی کی بات کی ہے!
    اور پنجاب کے حکمراں اتنے بیبے نہیں ہیں جتنا آپ انہیں ظاہر کیا کرتے ہیں،وہ مثل مشہور ہےنا کہ بنیئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے،تو گھبرائیں نہیں کچھ وقت کی بات ہے سب مونڈے مانڈے آگے آجائیں گے! :roll:

    ReplyDelete
  7. یہاں سب سیاستدان اپنی جیبیں بھرنے کے لئے انتخابات لڑتے ہیں۔ عوام کا کس نے سوچا ہے۔ پاکستان کی جاہل عوام ہر بار انہی گدھوں کو منتخب کر کے ھمارے سر پر مسلط کر دیتی ہے۔ جمہوریت پڑھے لکھے معاشرے کے لئے ھو سکتی ہے، جاہلوں کے لئے نہیں۔ ہمارے لئے فوجی ڈنڈا صحیح ہے۔

    ReplyDelete