ملک کے بہت سے حصے خصوصاَ اپر سندھ کے علاقے جرائم کی آمجگاہ بنے ہوئے ہیں اور لوگوں کے پاس بے تحاشہ غیر قانونی جدید اسلحہ ہے جو جرائم اور بدامنی کا سبب بنا ہواہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ صرف بد امنی کی لپیٹ ہیں بلکہ ان علاقوں میں جرائم کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ اغوا برائے تاوان کی واردتوں میں لوگوں کو اغوا کر کے قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں جو نہ صرف تشویشناک بات ہے بلکہ ملک کی بدنامی کا باعث بھی ہیں ، اغوا کندگان اپنے مطالبات پورئے نہ ہونے کی بنا پر اغوا کئے گئے افراد کو بڑی بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں۔ بالائی صوبۂ سندھ کے علاقوں میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران قبائلی جھگڑوں میں دو خواتین اور دو بچوں سمیت پچپن افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ بات ایک غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ ہیومن رائٹس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت اس جانب توجہ دیتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع کو روکے۔ سوسائٹی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ ہیومن رائٹس نے انکشاف کیا ہے کہ یہ ہلاکتیں معمولی نوعیت کے جھگڑوں کے نتیجے میں ہوئیں اور یہ واقعات زیادہ تر لاڑکانہ، جیکب آباد، گھوٹکی، اور شکارپور کے علاقوں میں پیش آئے ہیں اور ان ہی علاقوں کو قبائلی جھگڑوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ بد امنی کی وجہ سے بالائی سندھ کے عوام پنے گھر باراور کاروبار کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن منتقل کررہے ہیں۔ بالائی صوبۂ سندھ میں اب آئے دن جرائم کا ارتکاب ہوتاہے ۔ چھوٹی موٹی باتوں اورزمین و جائیداد کے تنازعے پر ایک دوسرے کا خون بہانا، شراب نوشی ، نشیلی ادویات کا استعمال ، عصمت ریزی وغیرہ جیسے جرائم اب ایک معمول بن چکے ہیں ۔ نقب زنی ،چوری ، ڈکیتی یہ سب تو معمولی قسم کے واقعات مانے جاتے ہیں اور اب اغواکاری!!....۔ ان سب کی روک تھام کے لئے پولیس فورس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں بھی ہیں ۔سینکڑوں کی تعداد میں سماج سدھار اور غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں بھی ہیں ۔ مگر جرائم کے ارتکاب میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتاہے آخر ہم کس سمت میں جارہے ہیں ۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ مستقبل کی فکر کی جائے ۔ مستقبل کو سدھارنے اور سنوارنے کی سعی کی جائے ۔ برائی کا قلع قمع کیا جائے اور اچھائی کو فروغ دیا جائے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں ہر شخص کی نظریں سیب کے لال والے حصے پر لگی ہوئی ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ! اس صورتحال پر قابو پانے کی ذمہ دار ی کس کی ہے ؟ معاملہ توجہ طلب ہے ۔
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔