Saturday, October 31, 2009

حیدرآباد میں یونیورسٹی کون بنائے گا


حیدرآباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ 1935 تک سندھ کا دارالخلافہ رہا۔ اس شہر کی بنیاد 1768 میں میان غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی۔ قبل بنیاد یہ شہر ایک مچھیروں کا گاؤں تھا جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔ پاکستان کے وقوف میں آنے سے پہلے اس شہر کو ہندوستان کے پیرس کا درجہ دیا جاتا تھا کیونکہ اس کی سڑکیں گلاب کے عرق سے صاف کی جاتی تھیں۔ اپنی تاریخ میں یہ شہر سندھ کا دارالخلافہ رہ چکا ہے، اسی لئے یہ اب ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کی حکومت سے لے کر 1980 کے سانحےتک حیدرآباد اپنی پہچان کھو چکا تھا اور اس کی تاریخی عمارات کھنڈروں میں تبدیل ہو گئیں۔ سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی عالم اور صوفی درویشوں کی پیدائش ہوئ ہے اور اس شہر کی ثقافت اس بات کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ ہے۔ یہ شہر پاکستان کے کچھ اہم ترین تاریخی و تہذیبی عناصر کے پاس وقوع ہے۔ تقریباً 110 کلومیٹر کی دوری پر امری ہے جہاں ہڑپہ کی ثقافت سے بھی قبل ایک قدیم تہذیب کی دریافت کی گئ ہے۔


 



جہاں یہ شہر اپنی تہذیب و تمدن کے لئے جانا جاتا ہے وہاں اسکے تعلیمی ادارے بھی بہت جانے مانے ہیں۔ حیدرآباد میں تقسیم ہند کے بعد بنائ گئ سب سے پہلی یونیورسٹی کا قیام ہے۔  مگر بعد میں اس جامعہ کو حیدرآباد سے جامشورہ منتقل کر دیا گیا۔ اوراس کے بعدسے حیدرآباد میں یونیورسٹی کی کمی اشدضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔
حیدرآباد کی موجودہ آبادی اس وقت ساٹھ (60) لاکھ ہے مگراس شہر میں کوئی جنرل، میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ لہذا حیدرآباد کے طلباءمجبورا جامشورہ کی جنرل، میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں ۔ مگر جامشورہ کی یونیورسٹیوں میں حیدرآبادکے طلبا کیلئے صرف چند سیٹ مختص ہیں جو کہ حیدرآباد کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں۔اور اگر حیدرآباد کے طلبا کو وہاں داخلہ مل بھی جائے تو حیدرآباد کے طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کو مارا پیٹا جاتا ہے اور ان سے موبائل اور پیسے چھین لیے جاتے ہیں ۔ ان وجوہات کی بنا پر حیدرآباد کے طلباء میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
پچھلے سال ضلع حکومت حیدرآباد کی جانب سے حیدرآباد میں گرلز میڈیکل کالج کے قیام کی گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے باقاعدہ منظوری دے دی تھی  یہ کالج لطیف آباد میں واقع پبلک اسکول میں قائم کیا جانا ہے جہاں 110ایکڑ اضافی زمین پہلے سے موجود ہے جبکہ گرلز اسکول کی نئی عمارت بھی اس قابل ہے کہ جہاں میڈیکل کی کلاسیں فوری طور پر شروع کردی جائیں گی مذکورہ کالج کا الحاق لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈہیلتھ سائنسز سے ہو گا اور یہی یونیورسٹی اس گرلز کا لج کے نصاب بنائے گی اور امتحانات لے گی۔ اس سلسلہ میں لمس کی انتظامیہ اور ضلع حکومت حیدرآباد میں معاملات طے پاچکے ہیں۔ مذکورہ گرلز کالج کو بھٹائی اسپتال لطیف آباد اور کوہسار اسپتال سے بھی منسلک کیا جائے گا۔ لمس کی انتظامیہ اور ضلع ناظم حیدرآباد نے پبلک اسکول کا معائنہ بھی کیا اور دونوں ٹیموں نے اسکول کی عمارت اور وسیع اراضی کو گرلز میڈیکل کالج کے لیے نہایت موزوں قرار دیا ہے جبکہ پبلک اسکول انتظامیہ نے عارضی طور پر ایک ہاسٹل میڈیکل گرلز کالج کی اقامتی طالبات کے لیے مخصوص کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وعدوں اور یقین دہانیوں کی بجائے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک لائحہ عمل وضع کیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائےتاکہ حیدرآباد کےطلباء بھی جنرل، میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم حاسل کر سکیں۔


 


6 comments:

  1. جن کو آپ نے مچھیرے لکھا ہے یہ دراصل "چی اُور" ہوتے تھے ۔ یہ لوگ بہت سے ہُنر جانتے تھے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں
    مچھلیاں پکڑنا
    چھاج بنانا
    چھاج والے تیلوں سے ہی چھوٹے بچوں کیلئے جھُنجھُنے اور گوڑے بنا نا
    چُوڑیاں بنانا
    بچوں کیلئے مٹی کے گھُوگھُو گھوڑے اور دوسرے کھلونے بنانا

    دراصل یہ لوگ موسم کے لحاظ سے اپنا ذریعہ روزگار بدل لیتے تھے

    اور ہاں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ حیدر آباد سے جام شورو یونیورسٹی کس نے بھیجی ؟

    ReplyDelete
  2. شاید آپکے قائد الطاف صاحب بنا دیں اب! :idea:

    ReplyDelete
  3. حیدرآباد میرا ننھیال بھی ہے :smile:

    ReplyDelete
  4. بہت خوب، اسے کہتے ہیں باتیں نہیں عمل!
    اب راہ میں روڑے اٹکانے والے بھی انسانیت اختیار کرلیں تو ان یونیورسٹیز کا قیام بلکل مشکل نہیں،

    ReplyDelete
  5. بہت خوب :cool: شہزادے :sad: حیدرآباد کی تاریح دہرانے کا
    میں ہیرآباد میں رہے چکا ہوں یہ سن2002کی بات ہے جب بھی حیدآباد میں کافی صاف تھا لینکن ہماری گلی کی اتنی خرب تھی

    ReplyDelete
  6. جناب پہلے تو یہ کہ حیدرآباد کی آبادی 17 لاکھ ہے اور حیدرآباد میں یونیورسٹی تو صرف الطاف بھائی ہی بنا سکتے ہیں کسی میں اتنا دم کہاں جو یونیورسٹی کی بات کرے

    ReplyDelete