Wednesday, October 14, 2009

فرق صرف قیادت کا ہے


فرق صرف قیادت کا ہے,,,,نشیب و فراز…عباس مہکری


متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت اگر موجودہ بلدیاتی نظام کو برقرار رکھنے پر زور دے رہی ہے تو اس بات کو محض ایم کیو ایم کا ”سیاسی موقف“ قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا ایم کیو ایم کے مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد میں شہری مسائل حل کرنے میں جو انقلاب آفرین پیشرفت ہوئی‘ اُس کے تناظر میں یہ ایک کامیاب ترین نظام ہے۔ کراچی میں رہنے والا ہر شہری‘ چاہے وہ کسی بھی مذہب‘ مکتبہ فکر‘ لسانی اکائی‘ کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی طبقے سے تعلق محسوس کرتا ہو‘ وہ چار سال پہلے والے اور آج کے کراچی میں واضح فرق محسوس کرسکتا ہے۔ پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں تک‘ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے زیر انتظام تمام علاقوں میں آج پانی کی قلت پر آہ و بکا نہیں ہے‘ گھر کے باہر گلیوں اور سڑکوں پر گٹر نہیں اُبل رہے، ٹوٹی ہوئی گلیوں اور سڑکوں کی شکایات نہیں ہیں۔ چار سال کے دوران شہر کی شاہراہوں پر چلنے والی گاڑیوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہونے کے باوجود اس طرح ٹریفک میں روانی کبھی نہیں دیکھی۔ اُنہوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک کروڑ 80 لاکھ والی آبادی کے اس شہر میں وہ بیس بیس کلو میٹر تک بریک لگائے بغیر گاڑی چلا سکیں گے۔ شہری حیرت زدہ ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن تھا۔ لوگوں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ اُن کے ایک ٹیلیفون پر شہری حکومت کے اہلکار اُن کے دروازے پر اُن کے مسائل حل کرنے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے لوگ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ شہروں کی طرح اپنے شہر کا خوبصورت اور عہد نو سے ہم آہنگ انفرااسٹرکچر دیکھ کر فخر اور خوشی کے احساس میں سرشار ہیں۔ نئی نسل کے لوگ سنتے تھے کہ ماضی میں کراچی کی سڑکیں دھوئی جاتی تھیں لیکن اُنہوں نے 50 سال بعد جدید مشینوں سے کراچی کی سڑکوں کو دُھلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔  ممکن ہے پاکستان کے دیگر علاقوں میں یہ نظام ناکام رہا ہو لیکن کراچی کے لوگوں کا تجربہ قطعی طور پر اس کے برعکس ہے۔ اس کا کریڈٹ ناظم کراچی سید مصطفی کمال کو جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ چار سال میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دن اور رات ایک کردیا۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ سوتے کب ہوں گے۔ شہری حکومت کے افسران اور اہلکاروں کی ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ اُن کی نیند پوری نہیں ہوتی لیکن ناظم کراچی نے کبھی کسی سے ایسی شکایت نہیں کی۔ وہ رات کو چار بجے بھی کسی ترقیاتی منصوبے کی سائیٹ پر کام کا خود جائزہ لے رہے ہوتے ہیں اور صبح آٹھ بجے بھی مزدوروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہزاروں امور کے روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کے ساتھ ساتھ وہ رش کے اوقات میں خود ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اس چار سال کے عرصے میں کراچی جیسے شہر کو نہ صرف سنگین مسائل سے نجات دلائی بلکہ اُسے عہد نو کے ترقی یافتہ شہروں کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ ان چار سالوں کے دوران کراچی کی شہری حکومت نے پانی اور سیوریج کے 194‘ میگاپروجیکٹ کا ”کے تھری“ کا پروجیکٹ‘ گریٹر کراچی سیوریج کے پلان ”ایس تھری“ بھی شامل ہیں۔ صنعتی علاقوں اور کچی آبادیوں میں پانی اور سیوریج کے قابل ذکر منصوبے پایہٴ تکمیل تک پہنچے۔ دیہی علاقوں میں ڈیمز تعمیر کئے گئے۔ اسی عرصے میں تین سگنل فری کوریڈورز تعمیر کئے گئے‘ جن کے لئے 35 سے زائد فلائی اوورز اور انڈرپائسز مکمل ہوئے جبکہ 4 فلائی اوورز پر کام جاری ہے۔ اس طرح کراچی میں 62 کلو میٹرز شاہراہیں سگنل فری ہوگئی ہیں اس سے نہ صرف ٹریفک جام سے نجات مل گئی بلکہ کراچی دنیا کے جدید ترین شہروں جیسے خوبصورت نظارے پیش کررہا ہے۔ اس کے ساتھ 316 سے زائد جدید اور بین الاقوامی طرز کی 15ہزار 500 کلو میٹر طویل سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر نو سے شہر کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبوں میں بھی کراچی کی شہری حکومت نے حیرت انگیز کام کئے۔ چار سال کے دوران شہر میں 158 نئے طبی ادارے‘ امراض قلب کے 4 /اسپتال اور 100 چیئرز کا ایک ڈینٹل کلینک قائم کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں 415 عمارتوں کی تعمیر پر 9308 ملین روپے خرچ کئے گئے۔ کراچی کے دیہی اور پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لئے 5/ارب روپے کی لاگت سے 110 سے زائد منصوبے مکمل کئے گئے۔ شہر میں تفریحی سرگرمیوں اور کھیلوں کے فروغ کے لیے 348 پارکس اور 16 ا/اسپورٹس اسٹیڈیمز تعمیر ہوئے۔19 کرکٹ اکیڈمیز اور گراؤنڈز کی تعمیر جاری ہے۔ صنعتی علاقوں کو پہلی مرتبہ 5/ارب روپے کی لاگت سے انفرااسٹرکچر دیا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن کے شعبے میں 70 کروڑ روپے کی لاگت سے صدر میں پہلا پارکنگ پلازہ مکمل کیا گیا۔ 50 کروڑ روپے کی لاگت سے سی این جی بس پائلٹ پروجیکٹ شروع ہوا۔ بلدیہ ٹاؤن میں انٹر سٹی بس ٹرمینل تعمیر کیا گیا۔ 33 پیڈسٹرین برج اور 255 بس اسٹاپس تعمیر ہوئے۔ گرین کراچی مہم کے تحت 10 لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے۔ کراچی اس قدر سرسبز پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ لوگوں کی شکایات کے ازالے اور کراچی کے مجموعی نگرانی کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے جدید سسٹم قائم کئے گئے۔ ہزاروں بے شمار منصوبے ایسے ہیں جن کا ذکر ان سطور میں ممکن نہیں۔ یہ صرف کراچی کے لوگ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہاں کیا انقلاب آیا۔
کسی نظام کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس نظام کو چلانے والی قیادت پر ہوتا ہے۔38 سالہ سید مصطفی کمال دنیا کے کم عمر ترین میئر ہیں جنہوں نے ایک ایسے شہر کی کایا پلٹ دی جس کی آبادی دنیا کے 60 ملکوں کی انفرادی آبادی سے زیادہ ہے۔ کم عمر ہونے کے باوجود اُنہوں نے ایک بڑے لیڈر کے طور پر دنیا میں اپنے آپ کو تسلیم کرایا ہے۔ انتھک محنت میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ آج کا کراچی اُن کے وژن کا عکاس ہے۔ کراچی کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے کراچی کے مسائل کو اُن کی پوری سنگینی کے ساتھ سمجھ کر اُن کا صحیح حل تلاش کیا ہے۔ اُنہوں نے جس طرح مختلف شعبوں میں درپیش چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لئے مختلف ٹیمیں تشکیل دیں۔ یہ اُن کی قائدانہ صلاحیت اور تدبر کا قابل فخر مظاہرہ ہے۔ قبل ازیں وہ سندھ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر رہے۔ یہ محکمہ پہلی دفعہ قائم کیا گیا تھا لیکن دو سال کے عرصے میں اُنہوں نے اس محکمے کو حکومت سندھ کا نہ صرف اہم ترین محکمہ بنا دیا بلکہ اُسے صوبائی حکومت میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی۔ سید مصطفی کمال نے کم عمری میں عام لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ صوبوں اور مرکز میں بھی اُن جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین مبارکباد کے مستحق ہیں‘ جن کی تربیت نے کراچی کو ایسا لیڈر دیا۔ کراچی کے کامیاب تجربے کے بعد یہ بات دلائل سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ کوئی نظام کامیاب یا ناکام نہیں ہوتا‘ فرق صرف قیادت کا ہے۔ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس شہر میں ترقی کی موجودہ رفتار کو جاری رکھنا ہے تو یہ بات ضروری ہوگی کہ سید مصطفی کمال کی محنت‘ خلوص‘ لگن‘ مضبوط اعصاب‘ وژن اور قائدانہ صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا رہے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات تک اُنہیں ہی کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے تاکہ اسی جذبے اور کڑی نگرانی کے ساتھ جاری ترقیات منصوبے مکمل ہوسکیں۔


ماخذ: روزنامہ جنگ کراچی


10 comments:

  1. عباس مہکری نے سچ لکھا ہے اور ہم بھی اس حق میں ہیں کہ میئر کو مرکز میں‌بھی موقع ملنا چاہیے تا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔

    ReplyDelete
  2. عباس مہکری نے سچ لکھا ہے اور ہم بھی اس حق میں ہیں کہ میئر کو مرکز میں‌بھی موقع ملنا چاہیے تا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔

    ReplyDelete
  3. کراچی میں واضح تبدیلی آئ ہے جناب۔ اور اس کا کریڈٹ مصطفی کمال کو نا دینا ہر صورت نا انصافی ہوگی۔ جو بڑی اچھی بات ہے وہ یہ کہ جماعت کی پچھلی مقامی حکومت اور متحدہ کی اس مقامی حکومت میں کارکردگی کی وجہ سے جو مثبت مسابقت کی فضا بنی ہے کاش یہ چیز قومی سطح تک جائے۔ اگر مصطفی کمال اپنے ٹیمپر پر قابو پانا سیکھ لیں تو مڈل کلاس سے ابھری قیادت کا اچھا نمونہ بنیں گے۔ اور اس کارکردگی کی وجہ سے ہی قومی سیاستدان خائف ہیں اور مقامی حکومتوں کے نظام کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. کراچی میں واضح تبدیلی آئ ہے جناب۔ اور اس کا کریڈٹ مصطفی کمال کو نا دینا ہر صورت نا انصافی ہوگی۔ جو بڑی اچھی بات ہے وہ یہ کہ جماعت کی پچھلی مقامی حکومت اور متحدہ کی اس مقامی حکومت میں کارکردگی کی وجہ سے جو مثبت مسابقت کی فضا بنی ہے کاش یہ چیز قومی سطح تک جائے۔ اگر مصطفی کمال اپنے ٹیمپر پر قابو پانا سیکھ لیں تو مڈل کلاس سے ابھری قیادت کا اچھا نمونہ بنیں گے۔ اور اس کارکردگی کی وجہ سے ہی قومی سیاستدان خائف ہیں اور مقامی حکومتوں کے نظام کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. کاش آپ ایک بار مصطفی کمال مل لیتے۔ تو"ٹیمپر" کا لفظ استعما ل نہ کرتے

    ReplyDelete
  6. کاش آپ ایک بار مصطفی کمال مل لیتے۔ تو"ٹیمپر" کا لفظ استعما ل نہ کرتے

    ReplyDelete
  7. آپ کا کیا خیال ہے؟‌ ایک بار صحافیوں‌پر پھر اسپتال میں عورتوں پر برسنا لوز ٹیمپر کی نشانی نہیں؛ یہ ان کے اپنے فائدے میں ہی ہے اور ہم سب کے بھی کہ وہ اپنے آپ پر مزید کنٹرول کریں‌کیونکہ اگر صرف ایک موقع پر بھی ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں اس طرح کا ردعمل دکھایا جائے تو ان کے اپنے لیے نقصان دہ ہے اور مڈل کلاس کے سیاستدانوں‌کے لیے بھی کیونکہ وہ عوام کو بہتر سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. آپ کا کیا خیال ہے؟‌ ایک بار صحافیوں‌پر پھر اسپتال میں عورتوں پر برسنا لوز ٹیمپر کی نشانی نہیں؛ یہ ان کے اپنے فائدے میں ہی ہے اور ہم سب کے بھی کہ وہ اپنے آپ پر مزید کنٹرول کریں‌کیونکہ اگر صرف ایک موقع پر بھی ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں اس طرح کا ردعمل دکھایا جائے تو ان کے اپنے لیے نقصان دہ ہے اور مڈل کلاس کے سیاستدانوں‌کے لیے بھی کیونکہ وہ عوام کو بہتر سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete