Monday, November 2, 2009

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے







اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے

اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے

اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

گلوکارہ: نیّرہ نور
شاعر: بہزاد لکھنوی


 


4 comments: