Thursday, February 4, 2010

انشاءاللہ آج نہیں توکل


کیا پیپلزپارٹی اب بھی واقعی ایک سیاسی جماعت ہے یا لیڈرشپ کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس کے تیور بھی تبدیل ہوچکے؟ پیپلزپارٹی ہیجان اور ہذیان زدہ کیوں ہے؟ اور ان کے لہجے اتنے غیرمتوازن ، غیر مہذب اور متشدد کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ جو کل تک کہہ رہے تھے کہ خاکم بدہن ہم نے پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا، اب یہ کہتے ہوئے زخم خوردہ کراچی کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں کہ… ”3ماہ ملتے تو الٹا لٹکا دیتا“ کوئی پوچھے کہ بھائی! سیاستدان ہو یاہلاکو خان اور چوراہوں میں الٹا لٹکانے والی سزا قانون کی کس کتاب میں موجود ہے؟ اور ایسی گفتگو سے تم ذوالفقار علی بھٹو کے نہیں ضیاء الحق کے پیروکار نظر آؤ گے… اک اور کھڑپینچ کو سنو جو کراچی کے بے مثال سٹی ناظم کو میڈیکل چیک اپ کا مشورہ دے رہاہے۔ وہ مصطفی کمال جس نے کراچی کا حلیہ بدل کے رکھ دیا اور اس کے بارے میں تازہ ترین خبر کچھ یوں ہے:
”لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) برطانوی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے 10بڑے شہروں میں کراچی دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا۔ ممبئی، نئی دہلی دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ 2009 کے بہترین میئرز کی فہرست میں ناظم کراچی کا نام شامل ہے۔“
واقعی مصطفی کمال کا میڈیکل چیک اپ ضروری ہے جو شہروں کو نوچنے، بھنبھوڑنے ، اجاڑنے والوں کے ہجوم میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو جناتی رفتار کے ساتھ شہکار شہر میں تبدیل کرتا جارہا ہے اور اس کے حریف بھی اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور شہر والے پیار سے اسے مصطفی کدال کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اور پھر سنو اک اور ”عوامی لیڈر“ اپنی کالے شیشوں والی بلٹ پروف گاڑی کے حوالہ سے کہتا ہے کہ ”جسے تکلیف ہو وہ اپنی جیب سے رقم خرچ کرکے میری گاڑی کے شیشے تبدیل کرادے۔“ کوئی ہے جو اسے سمجھائے کہ تمہاری گاڑی کے کالے شیشوں سے کسی اور کو نہیں، صرف قانون کو تکلیف ہے۔
اک اور ریسلر ٹائپ کیریکٹر اٹھتا ہے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ کسی اعتراض پر سرعام بذریعہ ٹی وی چینل اسے ”بکواس“ قرار دیتا ہے تو دوسری طرف ڈپٹی سپیکر بھی ایوان میں متحدہ کے ارکان کو ”آؤٹ آؤٹ“ کا ورد سناتی ہیں تو یہ سب چاہتے کیا ہیں؟
کیا یہ واقعی سیاستدان ہیں؟
پیپلزپارٹی والوں کو ہو کیا گیاہے؟
کیا فیوڈل ازم میں دھنسے بلکہ لتھڑے ہوئے یہ لوگ نہیں جانتے کہ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے اور کلام آدمی کا شجرہ ٴ نسب بیان کرتا ہے، تقریر اور تحریر انسان کی اصل تصویر ہوتی ہے اور سیاستدان تو سرتا پا ذہن اور زبان ہوتا ہے… افسوس صد افسوس کہ ان کے ذہن پراگندہ دکھائی دیتے ہیں اور ان کی زبانیں صرف زہر یا آگ اگلنے میں مصروف ہیں لیکن اچھی خبر یہ کہ یہ جتنے غیرمتوازن اور متشدد، دوسری طرف کے لوگ یعنی ان کے اتحادی اتنے ہی مہذب اور متوازن، زیادہ سے زیادہ یہ شکوہ کہ پیپلزپارٹی تو دہشت گردی پر اتر آئی ہے۔
اس تمام تر فیوڈل غلاظت کو دیکھ کر میرا ذہن مختلف حوالوں سے سوچ رہا ہے۔
کیا پی پی پی کی مقامی لیڈرشپ کو کراچی میں ہونے والے انقلابی ترقیاتی کام بلکہ کارنامے ہضم نہیں ہو رہے بالخصوص جس محنت اور محبت سے لیاری کو خصوصی توجہ دی گئی۔
کیا ان کی اس بے تحاشہ فرسٹریشن کے پیچھے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے متوقع نتائج ہیں یا پنجاب میں متحدہ کی متوقع آمد انہیں بے چین کر رہی ہے جہاں متحدہ ان کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ عملی طور پر پیپلزپارٹی نہیں… صرف متحدہ ہی عام آدمی اور پڑھے لکھے متوسط طبقے کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے جس کا زندہ ثبوت کراچی کارکردگی ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شاید کارکردگی کے قحط کا شکار یہ لوگ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ کراچی کی سٹی گورنمنٹ نے ان کی ”اجازت“ کے بغیر 2020تک کے لئے جو ترقیاتی منصوبہ بندی کی ہے اس میں ”مونچھوں“ کو مداخلت کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ میں نے خود کسی ٹی وی چینل پر ان کے وزیر بلدیات کو چیختے چلاتے سنا ہے کہ سٹی گورنمنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے کیونکہ اس طرح کی منصوبہ بندی ان کا استحقا ق ہے۔ اللہ کے بندو! اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس بیچارے سیاسی تھورزدہ ملک میں کوئی تو ہے جس نے کوئی وژن دیا اور آنے والے دس سالوں تک کی منصوبہ بندی کی۔ بجائے اس کے کہ تم مصطفی کمال جیسے محنتی، مشقتی ا ور باکمال نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے، تمہیں پوائنٹ سکورنگ کا دورہ اور اپنے ووٹ بنک کی مصیبت پڑ گئی۔
کیسی بلٹ پروف فیوڈل ذہنیت ہے جو نہ خود کچھ کرتی ہے نہ کسی اور کو کچھ کرتے دیکھ سکتی ہے لیکن کب تک؟؟؟
پورے ملک میں کراچی جیسی ناقابل یقین اور محیر العقول ڈیویلپمنٹ کی ضرورت ہے تو پورے ملک کے عوام کو آج نہیں تو کل اس جاگیردارانہ اور صنعت کارانہ سیاست پر لعنت بھیج کر معاملات ان کے سپرد کرنا ہوں گے جو 72,72گھنٹے کام کرکے 62 سالوں کے رکے کام چند سالوں میں کر دکھاتے ہیں… ہاتھ کنگن کو آرسی کیا!
عوام نہ کسی کے مزارعے ہیں نہ مزدور… بالآخر مونچھوں، موٹی گردنوں، پلی ہوئی توندوں کی جگہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، محنتی متوسط طبقہ کے جوانوں کو آگے آنا اور یہ ملک بچانا ہی نہیں چلانا بھی ہوگا اور اس قبیل کے لوگوں کا پہلا اور آخری پلیٹ فارم کون سا ہے؟؟؟
آج نہیں تو کل سب کو سمجھ آجائے گا اور یہی وہ مبارک دن ہوگا جب صحیح سمت کا تعین بھی ہو جائے گا کہ صحیح تشخیص آدھا علاج ہوتی ہے۔ انشااللہ آج نہیں تو کل صرف اور صرف ”کارکردگی“ ہی معیار قرار پائے گی۔ ”پرفارمنس“ ہی پہلی اور آخری کسوٹی ہوگی!


انشاء اللہ آج نہیں تو کل,,,,چوراہا … حسن نثار


2 comments:

  1. اچھے کام کی صرف تعریف ہی نہیں حوصلہ افزائی بھی ہونا چاہیئے لیکن اس کیلئے ایک نہیں سب کام کرنا پڑے گا ۔ اور سے بڑی بات کہ حسن نثار سمیت ہمارے قلمکاروں کو بھی اپنے لئے صرف ایک راہ متعین کرنا ہو گی اچھائی کی حمائت اور غلط کی مخالفت کی راہ

    ReplyDelete
  2. غیرمتعلقہ تبصروں سے پرہیز کریں۔شکریہ

    ReplyDelete