Friday, April 16, 2010

ہزارہ صوبہ تحریک

آج کل آئینی اصطلاحات کمیٹی کا بڑا چرچا ہے  ـ صوبہ سرحد کی بڑی پارٹی اے این پی کا اصرار ہے کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے پختون خواہ رکھا جائے ـ اس نام کے رکھنے پر صوبے کے بعض علاقوں کے رہنے والے لوگوں کو اعتراض ہے ـ خاص طور پر ہزارہ ڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے رہنے والے لوگ اس نام کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش ہیں ـ
اگر تھوڑے سے ووٹ حاصل کرنے والی اے این پی‘ صوبے کا نام تبدیل کرواکے پاکستان کے خلاف سازش کرسکتی ہے اور پختونستان کے قیام کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔ تو ہزارہ الگ صوبہ کیوں نہیں بن سکتا۔  کیونکہ پشاور میں بھی جو صوبے کا دارلخلافہ ہے 40 فیصد لوگ ہندکو بولتے ہیں‘ جبکہ دوسری طرف ڈیرہ‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ ہزارہ کی اکثریتی زبان ہندکو ہے۔  اس لئے اگر صوبے کا نام خیبر پختونخواہ ہوسکتا ہے تو یہ اکثریتی لوگوں کا صوبہ (نام) بننا چاہئے تھا۔  لیکن اے این پی نے سازش کرکے اکثریت کو نام کے اعتبار سے اقلیت میں بدل دیا ہے ۔  جب ہزارہ الگ صوبہ بنے گا تو تربیلا پختون خواہ میں نہیں رہے گا کیونکہ اس کی جھیل بھی ہزارہ میں ہے اور ڈیم بھی ۔  دوسری طرف افغانستان نے کابل پر کُنٹر میں ڈیم بنانا شروع کر دیا ہے اور وارسک جو پختونخواہ میں واحد ہائیڈل پراجیکٹ ہے۔  وہ بھی ہائیڈل پراجیکٹ نہیں رہے گا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چترال کے پورے علاقے میں ان کی اپنی زبان ہےان میں پشتو بولنے والے معدوم ہیں اس لئے وہ بھی صوبے کا نام پختونخواہ نہیں رکھنا چاہتے اور لگتاہے کہ یہ معاملہ اصل میں پختونستان کی طرف جارہا ہے ۔ پختونخواہ کے ساتھ خیبر اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ خیبر دونوں طرف کے پختونوں کا دروازہ ہے ۔ 
اے این پی صوبہ پنجاب میں سرائیکی صوبے کی اور بلوچستان میں پختونوں کے حقوق اور ان کی شناخت کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جب بات ان کے اپنے صوبے میں بسنے والے غیر پختونوں کی اور سندھ میں بسنے والے غیر سندھیوں ( اردو اسپیکنگ )کی شناخت کی آتی ہے تو اے این پی کا موقف بالکل تبدیل ہو جاتا ہے ـ یہ دوہرا معیار اے این پی کی جمہوریت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے ـ
صوبہ سرحدکانام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھے جانے سے ہزارہ ڈویژن کے عوام میں جو سخت بے چینی پیداہوئی ہے اسے کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہزارہ ڈویژن کے عوام اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ لہٰذ اس سے پہلے کہ ملک میں بے چینی کی لہرمزید دوڑے ملک کی بقاء و سلامتی، معاشی استحکام، جمہوریت کے فروغ اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو دورکیا جائے۔

3 comments:

  1. آرام سے رہیں۔ یہ مزید صوبوں والی بات آءندہ سیاست کے لئے سنبھال کر رکھ لی گئ ہے۔ ہزارہ صوبہ بنے گا تو پنجاب کا کچھ حصہ اس میں جائے گا۔ سرائیکی صوبے کا مطالبہ کھڑا ہوگا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ فیوڈل نظام کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ ورنہ ایک طرف تو مسلم لیگ قاف ہزارہ صوبے کی حمایت کر رہی ہے اور دوسری طرف اسمبلی میں اسکے خلاف ووٹ تک نہیں دیتی۔ ایسا کیا ہے کہ وہ اس مسئلے پہ عملی اصولی موءقف تک نہیں لے سکتے۔
    اس ملک میں اس وقت کیا ہمیشہ سے فیوڈلز کی حکومت رہی ہے اور وہ اپنی طاقت پہ یہ ضرب نہیں لگنے دیں گے۔ البتہ آئندہ کی سیاست کے لئے یہ موضوع اچھا ہے کہ مزید صوبے بنانے چائیں۔ اور بر سر اقتدار ھکومت ایسا نہیں کر رہی ہے یا فلاں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور فلاں جماعت یہ کہہ رہی ہے۔ حالانکہ دل سے یہ نہیں چاہ رہے ہونگے۔
    اب سرحد کا نام طے ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ اس طرح چلے گا۔ یعنی کوئ نہ کوئ لا یعنی مسئلہ ضرور رہے گا۔

    ReplyDelete
  2. اگر نام تبدیل کرنے سے ہزاروں سال پرانے ہزاروں مسائل میں سے ایک کم ہو جائے گا تو ضرور کر دینا چاہئے!

    ReplyDelete
  3. محترم : ہزارہ صوبہ کا مطالبہ کسی ایک قوم ایک پارٹی ایک قبیلے کا نہیں ہے ہزارہ صوبے کا مطالبہ ہر اس ہزارے میں رہنے والے ہزارے وال کا مطالبہ ہے جو اپنی مٹی اور دھرتی سے پیار کرتا ہے ،، اگر ہزارہ صوبے کا مطالبہ صرف ایک پارٹی یا قبیلے کا ہوتا تو کبھی بھی اتنی جلدی اتنی زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرتا اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں‌کہ ہزارہ صوبے 1901 تک رہا اور یہ بر صغیر پاک و ہند کا سب سے مالدار اور وسائل سے بھرا صوبہ تھاجس کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے رہی بات پختون خوا یا خیبر پختون خوا کی تو یہ مطالبہ شروع سے کس پارٹی نے کیا اور اس کی محرک کون سی پارتی رہی سب کو پتہ ہے ،، اگر پختون خوا تمام پختونوں کا مطالبہ ہوتا تو ہزارہ کے غیور پختون کبھی بھی اس کی مخالفت نہ کرتے اور خاص طور پر پشاور ،، لکی مروت ،، ڈیرہ اسماعیل خان ،، چترال اور دیگر اضلاع سے بھی اس کی مخالفت کی آوازیں نہ اٹھتیں

    ReplyDelete