Wednesday, June 1, 2011

ادھورے سپنے –تیسری قسط


گڈو کباڑیئے کی دوکان پر اپنے تھیلے کے ساتھ کھڑا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کباڑیہ فارغ ہو کر اُس کے تھیلے کا وزن کرے ۔ گڈو کے چہرے پر ایک عجیب سی مسرت اور اطمینان نظرآرہا ہے۔شائد وہ اپنی دن بھر کی کارکردگی سے مطمئن ہے اور اُسے قو ی یقین ہے کہ آج اُسے معمول سے پندرہ بیس روپے زیادہ ملیں گے اور اُس کے بعد اُس کا نئی بال خریدنے کا خواب پورا ہوگا ۔
کباڑیہ فارغ ہونے کے بعد گڈو کے تھیلے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُسے معمول سے زیادہ بھرا ہوا دیکھ کر گڈو کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہو کہتا ہے ،"کیوں میری جان آج کوئی خزانہ ہا تھ لگ گیا تھاکیا؟" اس سوال کا جواب گڈو صرف ایک ہلکی سے مسکراہٹ سے دیتا ہے ۔ کباڑیہ کاغذ اور گتوں کو تولتا ہے اور تولنے کے بعد ایک سو دو روپے گڈو کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے ۔ اپنی دن بھر کی محنت کا یہ معاوضہ شائد گڈو کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے لہذا اتنی بری رقم ملنے پر گڈو کا مٹی اور گردوغبار اس اٹا چہرہ کسی تازہ گلاب کی طرح کھل جاتا ہے ۔ وہ رقم اپنی جیب میں انتہائی احتیاط سے رکھتا ہے اور اپنی آنکھوں میں اپنے معصوم خواب کی تکمیل کی امید لئے خلاف معمول نسبتا تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے اور تصور ہی تصور میں اپنی نئی بال سے کھیلنے لگتا ہے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔