Tuesday, June 7, 2011

ادھورے سپنے – پانچویں قسط


ماں تاریک کمرے میں بیٹھی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی تھیلیوں میں ٹافیاں بھرنے میں مصروف ہے جن کے ٹھکیدار مناسب پیسے دے دیتا ہے۔ماں کی عمر بمشکل 30سال ہوگی،لیکن بھوک وافلاس کی زندگی نے اُسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔ اُس کے چہرے کو دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ یقیناکبھی بے حد خوبصورت رہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اُس کی زنڈگی سے محروم آنکھوں اور چہرے کی اُبھری ہوئی ہڈیوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آنکھیں برسوں ہوئے مُسکرانا بھول چکی ہیں ، اب تو شائد یہ رونا بھی بھول چکی ہیں۔

باہر کچی اینٹوں کے آنگن میں تین میلے کچیلے اور لباس سے تقریبا محروم بچے شو پالش کی کچھ خالی ڈیبوں اور دواؤں کی بوتلوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اُن کے قریب ایک لڑکی،جسکی عمر بمشکل دس سال ہوگی۔ ایک پھٹی پرانی کتاب لئے اُس کےصفحے اِدھر اُدھر پلٹنے میں مصروف ہے، وہ کتاب گڈو کو کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی اور گڈو یہ جانتا تھا کہ اُس کی بہن کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لہذا گڈو نے کتاب کباڑ میں نہیں بیچی تھی اور وہ یہ کتاب اپنی بہن کے لئے لےآیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پڑھنے کا شوق تو گڈو کو بھی بہت ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

لڑکی ہر صفحے کو اس انہماک سے دیکھتی ہے گویا پڑھنے کی کوشش کر رہی ہولیکن پھر شائد اپنی کوشش میں ناکامی کے بعد صرف تصویر کو دیکھتی ہے اور اُس پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اُس کے بعد صفحہ پلٹ دیتی ہے۔

اچانک ٹین کے خالی کنستروں سے بنا دروازہ کھولتا ہے اور گڈو اندر داخل ہوتا ہےاور دوڑتاہوا آکر ماں سے لپٹ جاتا ہے۔ گڈو کے چہرے پر بالکل اُس طرح کی مسکراہٹ ہے کہ جیسی کسی بچے کے چہرے پر کلاس میں اول آنے پر ہواکرتی ہے ۔گڈو کو اپنے سینے سے لگائے ماں کی آنکھ سے بے اختیار چھلک جاتا ہے اور گڈو کی کمر پر گِرکراُس کی میلی قمیض میں جذب ہو جاتا ہے ۔

گڈوماں سے الگ ہوتا ہے اور آنکھوں میں امید لئے لاڈبھرے اندازمیں ماں سے کہتا ہے۔"ماں۔۔۔۔۔آج تو مجھے گیند کے لئے بیس روپے دوگی نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دوگی ناماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ آج ضرور دونگی۔۔۔۔۔۔؟ اور دیکھو ماں!آج تو میں کتنے سارے پیسے لایا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں تو آٹا بھی آجائے گا اور گیند بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔" گڈویہ کہتے ہوئے ہوئے جیب سے ایک سو دو روپے نکال کر ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔

ماں پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئےاُس کے گرد سےاَٹے چہرے کو چومتی ہے اوراپنی آنکھوں میں موجزن سمندر کو ننھے گڈو سے چھپاتے ہوئے کہتی ہوئے کہتی ہے "ہاں ضرور دونگی!"خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے۔"ماں مجھے بہت زور کی بھوک لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی سے روٹی دو مجھے!"ماں جیسے کچھ چھپاتے ہو،"ارے بیٹا میں تو کام میں اتنی مصروف تھی۔۔۔۔۔۔ روٹی بنانے کا وقت ہی نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسا کر بس دس منٹ کھیل کر آ، اِتنے میں روٹی تیار ہوگی۔" ٹھیک ہے ماں تم روٹی بناؤ میں ابھی کچھ دیر میں آتا ہوں۔ گڈو یہ کہتے ہوئے ٹین کا دروازہ کھول کر بھاگتاہوا باہر چلا جاتا ہے۔اُسے اپنے دوستوں کو نئی گیند کی خوشخبری سنانے کی بھی جلدی ہوتی ہے۔ گڈو کے جاتے ہی ماں گڈو کے لائے ہوئے ایک سو دو روپے میں سے کتاب سے کھیلتی ہوئی لڑکی کو کچھ روپے دے کر آٹا لینے بھیج دیتی ہے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔