Saturday, June 4, 2011

ادھورے سپنے – چوتھی قسط


سورج کی تپش پر شام کی ٹھنڈی ہوا غالب آچکی ہے۔ اونچی کلاس کے لوگ اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمرورں سے نکل کر ٹھنڈی سڑکوں پر اپنی چمکتی دمکتی کاروں میں بیٹھ کر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔سڑک پر ہر طرف رونق نظر آرہی ہے اور اونچی کلاس کے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ رنگ برنگ اور رزق برق لباس پہنے ادھراُدھر گھوم پھر رہے ہیں اور اپنے پسندیدہ مشغلے "شاپنگ"میں مصروف ہیں ۔

گڈو ایک کھمبے سے ٹیک لگائے کھڑا ہے ۔اُس نے اپنے ایک سو دو روپے نکال کر ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں اور وقفے وقفے سے کبھی اپنی چھوٹی سی مٹھی میں بند پیسوں کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی کچھ فاصلے پر کھڑی چمکتی دمکتی کالے رنگ کی کار کی طرف دیکھتا ہے ۔ گڈو نے صبح ،رات کی باسی روٹی کے ساتھ "ناشتہ" کیا تھا اور اُس کے بعد سے اب تک اُس کے پیٹ میں سوائے پانی کے اور کچھ نہیں گیا ۔ شائد اُس معصوم فرشتے کو بھوک نے اب بری طرح سے ستاتا شروع کر دیا ہے ۔

سامنے کالی کار کے بونٹ پر گڈو کاا یک ہم عمر بچہ بیٹھا چاٹ کھا رہا ہے۔ بچے نے نیلی جینز کی نیکر اور سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ بچے کا باپ جس نے خوبصورت ولائتی لباس پہنا ہو اہے کار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے اور غالبا مینگو جوس پی رہا ہے جبکہ بچے کی ماں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہے اور وہ بھی چاٹ کھا رہی ہے ۔باپ اور ماں دور کھمبے سے ٹیک لگائے بھوکے پیاسے گڈو سے بے خبر خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔

گڈو شائد شش وپنج کا شکا ر ہورہا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اپنی دن بھر کی کمائی ایک سو دو روپے خرچ کر کے چاٹ لے لے اور اپنے پیٹ کے جہنم کو سرد کر دے یاپھر یہ رقم لے جا کر اپنی ماں کو دےدے تاکہ وہ ان پیسوں سے آٹا خرید لے اور اُس کے چھوٹے بہن بھائی بھی روٹئ کھا لیں ۔۔۔۔۔۔۔اور ماں اُسے بھی تو ٹینس بال کے لئے پیسے دے گی۔ گڈو کچھ دیر سوچتا ہے ،اُس کے بعد اپنی مُٹھی میں بند پیسوں کی طرف غور سے دیکھتا ہے ، اپنے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہے ، اور چہرے پر ایک اُداس سی مسکراہٹ سجائے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا ہوا آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔