Monday, October 26, 2009

کیا پاکستان اسلامی ملک ہے

پاکستان دنیا کے چھپن اسلامی ممالک میں واحد ملک ہے جہاں شراب بنانے کی تو قانونی طور پر اجازت ہے لیکن مسلمان شہریوں پر شراب نوشی پر پابندی عائد ہے۔

سترہ کروڑ آبادی والے اس ملک میں شراب بنانے کے تین کارخانے ہیں اور انہیں قانونی طور پر ملکی آبادی کے تین فیصد یا پچاس لاکھ غیر مسلم شہریوں کو سرکار کے جاری کردہ پرمٹ کے تحت شراب فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ پابندی کے باوجود بھی پاکستان میں شراب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر شراب بنانے والے کارخانوں نے حالیہ چند برسوں کے دوران 'ووڈکا، جن، وہسکی، رم، برانڈی اور بیئر' کی نِت نئی اقسام متعارف کروائی ہیں۔ چار مختلف اقسام کی بیئر کے علاوہ ووڈکا اور جن میں آڑو، کینو، نمبو، سٹرا بیری، پائن ایپل اور دیگر پھلوں کے 'فلیور' یا ذائقہ بھی پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں شراب بنانے والی تو تین ہی فیکٹریاں ہیں جو راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں واقع ہیں لیکن بیئر صرف ’مری بروری‘ راولپنڈی ہی بناتی ہے۔ مری بروری تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل اٹھارہ سو ساٹھ میں پہلی بار گھوڑا گلی کی پہاڑیوں میں انگریزوں نے اپنی افواج اور غیر مسلم آبادی کی مانگ پوری کرنے کے لیے قائم کی تھی اور بعد میں مانگ بڑھ جانے کی وجہ سے یہ کارخانہ راولپنڈی منتقل کیا گیا اور انیس سو سینتالیس میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب انگریز واپس چلے گئے تو مری بروری کے اکثریتی شیئر ہولڈر ایک پارسی خاندان کے سربراہ پی ڈی بھنڈارا نے انتظام سنبھال لیا۔ انیس سینتالیس میں جب پاکستان بنا تو کچھ مشتعل لوگوں نے گھوڑا گلی میں واقع بروری جلا بھی ڈالی۔

مری بروری میں چھ سو ملازمین ہیں اور یہ کارخانہ ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے۔ بیشتر ملازمین مسلمان ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے ملازمین بھی ہیں جو تین پیڑھیوں سے ملازم چلے آرہے ہیں۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر اِسفنیار ایم بھنڈارا بھی اپنے خاندان میں تیسری جنریشن کے فرد ہیں جو اب کمپنی کا انتظام چلا رہے ہیں۔ اِسفنیار سے جب پاکستان میں شراب کی مانگ اور شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں شراب نوشی کرنے والوں کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں شراب کی جتنی مانگ ہے وہ پوری کرنے کے لیے اگر شراب بنانے والے کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے رہیں تو بھی پوری نہیں کی جاسکتی اور ہر سال شراب کی مانگ میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے'۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی شراب جو سمگل ہوکر آتی ہے یا ملک کے اندر غیر قانونی اور دیسی طریقے سے تیار ہوتی ہے اس کی مقدار بہت زیادہ ہے اور اگر حکومت اس کی روک تھام کرے یا اس پر ٹیکس لگائے تو ہر سال حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق دیسی طریقے سے تیار کردہ شراب زہریلی ہوتی ہے جس سے ہر سال سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں۔

اِسفنیار شراب کی پیداواری کی مقدار اور پینے والوں کی تعداد کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر خاصے محتاط نظر آئے۔ ’مری بروری پاکستان کی سب سے بڑی بروری ہے اور وہ سالانہ پچاس ہزار ہیکٹو لٹر یعنی پچاس لاکھ لٹر بیئر اور چار لاکھ گیلن یا تقریباً اٹھارہ لاکھ لٹر لِکر بناتی ہے۔‘ کراچی اور کوئٹہ میں قائم دو بروریز کی بنائی جانے والی شراب کی مقدار علیحدہ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان دونوں کی پیداوار بھی چار لاکھ گیلن سالانہ سے زیادہ ہی ہوگی۔

مری برروی کے مالک نے بتایا کہ پوری دنیا کی طرح شراب پر پاکستان میں بھی ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے جوکہ تقریبا اسی فیصد بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مری بروری آٹھ اور بارہ سال تک محفوظ رکھنے والی وہسکی تو پہلے ہی بنا رہی ہے لیکن اب اکیس برسوں والی سنگل مالٹ وہسکی متعارف کرائی جا رہی ہے۔' ہم جانی واکر کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور ہماری اکیس سالہ پرانی سنگل مالٹ وہسکی جو حال ہی میں مارکیٹ میں آئی ہے وہ کسی طور بھی اکیس سالہ پرانی سکاچ وہسکی سے کم نہیں'

الکوحل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ایک بڑے معالج ڈاکٹر صداقت علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ کے قریب لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ صداقت علی تیس برسوں سے شراب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ چھپ چھپا کر پیتے ہیں اس لیے تعداد کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں لیکن زیادہ تر بڑے گھرانوں کی خواتین شراب کے بجائے خواب آور گولیوں کو ترجیح دیتی ہیں‘۔

ڈاکٹر صداقت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے جس کی وجہ سے نچلے طبقے کے لوگ چرس اور دیگر منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منشیات اور بالخصوص ہیروئن کے خلاف آگہی کی مہم کی وجہ سے لوگوں میں شراب نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ وزارت انسداد منشیات کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہیں جس میں سے پانچ لاکھ لوگ ہیروئن کے عادی ہیں۔


راولپنڈی میں ایڈیشنل کلکٹر کسٹم ڈاکٹر زبیر احمد نے بتایا کہ رواں سال جنوری میں صرف راولپنڈی میں پکڑی گئی شراب کی آٹھ ہزار سے زیادہ غیر ملکی بوتلیں تلف کی گئیں۔ ان کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال کسٹم حکام پچاس ہزار لٹر سے زیادہ شراب پکڑ کر تلف کردیتے ہیں لیکن حکام کے مطابق اس سے کئی گنا زیادہ مقدار میں شراب پھر بھی سمگل ہوکر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچتی ہے۔ حکام کے مطابق سب سے زیادہ شراب کی سمگلنگ، دبئی اور کابل سے ہوتی ہے۔ بلوچستان کے شمالی، سندھ اور پنجاب کے بعض جنوبی اور صوبہ سرحد کے صدر مقام پشاور میں بھارتی شراب با آسانی دستیاب ہے۔

صوبہ سرحد میں سنہ دو ہزار دو میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت نے شراب فروشی پر پابندی عائد کردی اور دو بڑے ہوٹلوں کے لائسنس منسوخ کر کے انہیں اپنے غیر ملکی مہمانوں کو بھی شراب فروخت کرنے سے منع کیا گیا۔ اس کے بعد پشاور اور دیگر علاقوں میں شراب مہنگی ہوگئی لیکن اب کچھ عرصے بعد کابل سے سکاچ اور بھارتی شراب کے کنٹینر لائے جاتے ہیں اور انتہائی کم قیمت پر وافر مقدار میں آسانی سے دستیاب ہے۔ بعض شراب فروش ایسے بھی ہیں جن سے اگر بھارتی شراب مانگی جائے تو وہ اس کی جگہ سکاچ فراہم کرتے ہیں۔ پشاور میں ستر ملی لٹر والی سکاچ کی بوتل آٹھ سو سے ایک ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور ساحلی علاقوں میں بھی سستے داموں غیر ملکی شراب دستیاب ہے۔ یہاں دبئی اور دیگر علاقوں سے لانچوں کے ذریعے بڑے ڈبوں میں سکاچ وہسکی لا کر فروخت کی جاتی ہے۔ تربت اور گوادر میں بلیک لیبل جیسی ڈیلکس وہسکی سے عام رواجی سکاچ تک منرل واٹر کی خالی بوتلوں میں فروخت ہوتی ہے۔ بلوچستان میں افغانستان سے بھی شراب لائی جاتی ہے جو کہ ایک مقامی شراب فروش کے مطابق کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں بھیجی جاتی ہے۔

اس بارے میں مری بروری کے مالک اسفنیار بھنڈارا کہتے ہیں کہ پاکستان میں جتنی مقدار میں قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے تقریبا اتنی ہی تعداد میں سمگل شدہ اور دیسی طریقے سے غیر قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق دیسی طریقے سے تیار کردہ شراب سے ہر سال کئی لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ متعدد لوگ بینائی بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ ’حکومت اگر سمگل شدہ شراب غیر قانونی طور پر تیار کردہ شراب کو روکنے کے اقدامات کرے تو ایک طرف حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے تو دوسری طرف ملک میں غیر معیاری اور خطرناک شراب کی پیداوار کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے‘۔

پاکستان کے اکثر ہوٹلز میں شراب دستیاب ہوتی ہے اور اس سے کئی لوگوں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ اسلام آباد میں شراب فروشی کے کاروبار سے ارب پتی ہوجانے والے ’مسٹر ملک‘ کے مطابق انہوں نے دس سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم رکھے ہیں جو گاہکوں کو گھروں میں شراب پہنچاتے ہیں۔ ان کے مطابق بڑے گاہکوں کو وہ خود شراب دینے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں دیسی شراب بیچنے والے ایک شخص ’مسٹر عارف‘ کا کہنا ہے کہ ’ کام بہت اچھا ہے‘۔ ان کے گاہکوں میں آئے روز اضافہ ہوتا ہے، پیسہ بھی بہت ہے لیکن خطرہ بھی بڑا ہے۔ ان کے مطابق پولیس کو خرچہ دینا پڑتا ہے، ایکسائز والوں کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے اور اگر پکڑے جائیں تو پھر مصیبت بن جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے زیادہ تر گاہک مسلمان ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو نمازی بھی ہیں اور بعض دفعہ وہ نماز پڑھ کر شراب پینا شروع کرتے ہیں۔۔ خواتین بھی منگواتی ہیں۔۔ زیادہ تر گاہک نوجوان ہیں۔۔لوگ کبھی خوشی کے موقع پر پیتے ہیں تو کبھی اداسی اور غم غرق کرنے کے لیے پیتے ہیں۔۔ بس جی پینے کا بہانہ چاہیے‘۔


 


شراب بنانے کا سب سے بڑا کارخانہ مری بروری تو صوبہ پنجاب میں واقع ہے لیکن ان کی شراب سب سے زیادہ فروخت صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوتی ہے۔

جس کی بڑی وجہ مری بروری کے مالک اسفنیار بھنڈارا دونوں صوبوں میں غیر مسلمان آبادی کی اکثریت کا سندھ اور بلوچستان میں آباد ہونا بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق دوسری بڑی وجہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی شراب کے متعلق ’لبرل پالیسی‘ ہے۔

اسفنیار کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے تقریباً ہر ضلع میں شراب فروخت کرنے کے لائیسنس جاری کر رکھے ہیں اور ان مخصوص دکانوں سے شراب با آسانی دستیاب ہوتی ہے، جہاں سے قانونی طور پر صرف غیر مسلم ایکسائیز ڈیپارٹمینٹ سے جاری کردہ پرمٹ پر شراب حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اچھی خاصی تعداد میں مسلمان بھی ان کی الکوہل مشروبات استعمال کرتے ہیں۔

اِسفنیار کا موقف اپنی جگہ لیکن سندھ کے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوفیاء کرام کی دھرتی ہے، مذہبی رواداری ہے، ہندو مسلم اکٹھے رہتے ہیں اور سندھیوں میں مذہب پر قوم پرستی کا عنصر حاوی رہنے کی وجہ سے سندھ کے لوگوں میں شراب نوشی کا رجحان زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی مالدار لوگ سکاچ اور متوسط اور غریب لوگ پاکستانی شراب پیتے ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے بھی ’موالی‘ ہیں جو دیسی طریقہ سے خود بھی شراب تیار کرکے پیتے ہیں۔جہاں تک بلوچوں کا تعلق ہے تو وہ بقول ہمارے دوست واجہ صدیق بلوچ کے کہ مذہب کے معاملے میں بلوچ سندھیوں سے بھی زیادہ لبرل ہیں۔ ’ہمارے ان پڑھ لوگ تو اپنے سردار کو ہی سب کچھ سمجہتے ہیں۔‘

حکام کے مطابق شراب پر سب سے زیادہ ٹیکس صوبہ سندھ میں عائد ہے جبکہ کم سے کم ٹیکس صوبہ بلوچستان نے عائد کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے شراب بنانے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ سندھ اور بلوچستان کو فراہم کی جانے والی شراب کی بوتلوں پر یہ لکھنا لازم ہے کہ ’یہ شراب سندھ کے لیے ہے‘ اور ’یہ شراب بلوچستان کے لیے ہے‘۔

صوبہ سندھ اور بلوچستان کے لیے مختص کردہ شراب کے لیبل کے باوجود بالائی سندھ کے اکثر اضلاع جس میں کشمور، جیکب آباد، شکارپور اور لاڑکانہ وغیرہ شامل ہیں وہاں بلوچستان والی شراب کثرت سے فروخت ہوتی ہے۔ بلوچستان میں شراب پر ٹیکس کی کم شرح کی وجہ سے وہ سستی ملتی ہے۔

سندھ میں شراب فروخت کرنے والی دکانوں کو ’گُتہ‘ کہتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص مقررہ اوقات میں شراب خرید کرسکتا ہے۔ رات آٹھ بجے کے بعد قانونی طور پر گتہ بند کرنا لازم ہوتا ہے لیکن ہر شہر میں گتے کا مالک آٹھ بجے کے بعد بھی اپنی جان پہچان والے گاہکوں کو مطلوبہ مقدار میں شراب دستیاب کردیتے ہیں۔

پاکستان کی نصف آبادی والے صوبے پنجاب میں سرکاری طور پر شراب کی بظاہر کم فروخت کی وجہ مری بروری کے سینئر اہلکار میجر (ر) صبیح الرحمٰن کے مطابق حکومت کی جانب سے شراب فروخت کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسی ہے۔ ان کے مطابق پنجاب میں فائیو یا فور سٹار ہوٹل مالکان کو ہی لائسنس دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شہر میں اس طرح کے ہوٹل نہیں ہیں۔ تاہم ان کے مطابق لاہور، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں واقع ایسی بڑی ہوٹل جنہیں لائسنس حاصل ہے انہیں وہ شراب فروخت کرتے ہیں۔

پنجاب میں شراب کی کم فروخت کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار اپنی جگہ لیکن اگر حقائق دیکھے جائیں تو پنجاب کا شاید ہی کوئی ضلع ایسا ہو جہاں شراب دستیاب نہ ہو۔ ہاں البتہ بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے قدرے مہنگی ضرور ملتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے صاحب خان لاشاری کہتے ہیں کہ ’ہمیں شراب کے حصول میں دشواری ضرور ہوتی ہے لیکن مل جاتی ہے۔۔ ہندو یا کرسچن برادری کے لوگ انتظام کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ملاوٹ والی شراب بھی متھے لگ جاتی ہے۔‘

شراب کے معاملے میں پاکستان کے صوبہ سرحد کی صورتحال اِس وقت دیگر تینوں صوبوں سے مختلف ہے اور وہاں سن دو ہزار دو میں جب چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے صوبے میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی اور حتیٰ کہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے پشاور کے جن دو بڑے ہوٹلوں میں شراب دستیاب ہوتی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ لیکن صوبہ سرحد میں موجودہ ’لبرل حکومت‘ کے قیام کے باوجود بھی تاحال پابندی تو ختم نہیں ہوئی البتہ شراب کی دستیابی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔

پشاور میں چھ سے سات سو روپے میں پاکستانی شراب کی پچہتر ملی لٹر والی بوتل ملتی ہے لیکن سات سے آٹھ سو روپوں میں بھارتی شراب یا سکاچ کی ستر ملی لٹر والی بوتل مل جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر شراب نوشی کرنے والے ترجیح غیر ملکی شراب کو دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مری بروری کے مالک اسفنیار کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد میں ان کی الکوحل مشروبات کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہیں۔


بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

7 comments:

  1. :lol:
    اسلامی ملک ہوتا تو کیا ملک آج یہ حال ہوتا؟

    ReplyDelete
  2. میں سوچ رہی تھی کہ بڑی محنت کی آپ نے۔ پھر نیچے آتے آتے معاملہ سمجھ میں آیا۔ چلیں جناب مجھ سمیت کافی لوگوں کا خماریات کا علم بہتر ہوا اور بہت سوں کو پتہ چلا ہوگا کہ کیا کیا مال مل سکتا ہے۔ اور وہ ناداں چند ہی قسموں پہ قناعت کر رہے تھے۔ یہ بی بی سی والے ہر تھوڑے دنوں میں اس موضوع پہ بڑی سرگرمی سے کوئ رپورٹ بنا بنا کر شائع کر رہے ہیں جیسے پاکستانیوں نے ابھی نئ پینا شروع کی ہے حالانکہ پاکستانی ہمیشہ یہ کہتے رہ ہیں کہ میں نے توبہ ابھی نہیں کی ہے۔
    اپکو شاید علم نہیں کہ سعودی عرب جہاں شراب بیچنے پہ پابندی ہے وہاں لوگ اپنے گھروں میں خود تیار کرتے ہیں۔اور پیسہ ہونے کی وجہ سے یہ تیار کی ہوئ دارو صحت پہ برا اثر بھی نہیں ڈالتی۔
    مجھے بحرین اور دبئ کے ائیر پورٹس سے گذرنے کا اتفاق ہوا ہے اور وہاں کے ڈیوٹی فری شاپس ان کی خوبصورت بوتلوں اور انکی چمک سے جگمگا رہے ہوتے ہیں۔ میرے علم میں تو یہی ہے کہ یہ سب اسلامی ملک ہیں یعنی میں ان سب باتوں کے باوجود انہیں اسلامی ملک ہی سمجھتی ہون۔ ادھر ملاءیشیا میں بھی شراب کھلے عام ملتی ہے۔ہماری طرح چھپ چھپا کر نہیں۔حالانکہ وہ اتنے زیادہ مذہبی ہیں کہ جب تک حج نہ کر لیں شادی نہیں کرتے۔
    اب سرچ کرنی پڑے گی کہ کون سے اسلامی ممالک ایسے ہیں جہاں پر کچھ مسلمان اس عادت قبیح کا شکار نہیں اور انہیں میسر نہ ہو۔

    ReplyDelete
  3. پاکستان بنایا تو اسلامی ملک ہی گیا تھا لیکن بننے سے پہلے ہی اس کے خلاف سازشیں شروع ہو گئی تھیں ۔ جن کے نتیجہ میں لیاقت علی صاحب کو قتل کروا کر اور خواجہ ناظم الدین صاحب کی سادہ لوہی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک مہاشرابی پاکستان کا سربراہ بن گیا تھا جس کانام غلام محمد تھا ۔ اس کے بعد سکندر مرزا ۔ ایوب خان ۔ یحیٰ خان ۔ ذوالفقار علی بھٹو سب مہا شرابی تھے ۔ بینظير کا معلوم نہیں ۔ پرویز مشرف بھی مہا شرابی تھا اور موجودہ صدر بھی کچھ کم نہیں

    ReplyDelete
  4. سلام فر حان

    بچپن سے سن رھے ھیں پاکستان اسلامی ملک ھے ۔۔۔۔۔۔ سنی سنائ باتیں سچ نہیں ھوتیں

    پاکستان میں وہ سب ھوتا ھے جو یورپ میں ھوتا ھے فرق صرف اتنا ھے یورپ میں سر عام ھوتا ھے
    پاکستان میں چھپ کر

    ReplyDelete
  5. :lol: بس مومن تو انکے امیر المنافقین ہی ہیں :twisted:

    ReplyDelete
  6. :lol: بس مومن تو انکے امیر المنافقین ہی ہیں :twisted:

    ReplyDelete
  7. آج جو نواز شریف کی محبت میں سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں کل وہ ایوب خان کی ایمانیت کے گن بھی گاتے ہوئے پائے گئے تھے،ذرا اسی ایوب خان کی داستاں بھی سن لیجیئے :oops:
    http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/27-10-2009/col7.htm

    ReplyDelete