Wednesday, December 30, 2009

کراچی کی بدترین آتشزدگی ایک سوچی سمجھی سازش

دسویں محرم کے موقع پر ایم اے جناح روڈ پر ہونیروالی تاریخ کی بدترین آتشزدگی سے کراچی کے تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی دکان جل کر خاکستر ہوگئی تھی، ایک اندازے کے مطابق 60 سے زائد مختلف مارکیٹوں میں قائم تین سے چار ہزار دکانوں کو نقصان پہنچا جس میں رکھا ہوا مختلف نوعیت کا قیمتی سامان جن میں کپڑے، پردے، کمبل، کاغذ، اسٹیشنری کا سامان، ادویات، کھلونے، پلاسٹک کا سامان، الیکٹرانکس آئٹم، کھیل کا سامان، کراکری اور دیگر چیزیں شامل تھیں جل کر خاکستر ہوگیا۔  ایم اے جناح روڈ پر واقع اسپورٹس مارکیٹ کی مدینہ آئسکریم کی دکان سے آتشزدگی شروع ہوئی اور کے ایم سی بلڈنگ بولٹن مارکیٹ تک پہنچی جس میں لائٹ ہاؤس لنڈا بازار، پیپر مارکیٹ، کے ایم سی بلڈنگ، ڈینسو ہال کچھی گلی میڈیسن کی ہول سیل کی مدینہ مارکیٹ، میریٹ روڈ چھانٹی گلی، چھیپا مارکیٹ، نور سینٹر، ماروی چیمبر، اللہ واللہ بلڈنگ، کیفے ہاؤس مارکیٹ، اکبر مارکیٹ کوئٹہ مارکیٹ اور کے ایم سی بلڈنگ بولٹن مارکیٹ تک تقریباً 60 مارکیٹوں میں آگ لگائی گئی۔ لائٹ ہاؤس لنڈے بازار میں 212 دکانیں مکمل طور پر جل گئیں جبکہ 50 کو جزوی نقصان پہنچا۔ کئی دکانوں میں سے لوگ اپنا بچا کچھا سامان نکالتے نظر آئے اس کے علاوہ کچرا چننے والے افغانی لڑکے جلے ہوئے سامان میں سے اپنے کام کی چیزیں تلاش کرتے نظر آئے۔ ساتھ ہی قائم پیپر پرنٹنگ، پی وی سی پائپ، کاغذ کی دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ کے ایم سی بلڈنگ میں قائم نیشنل بینک اور حبیب بینک کو آگ لگائی گئی اس کے علاوہ بلڈنگ کے نچلے حصے کو بھی آگ لگائی گئی۔ ڈینسو ہال پر موجود نیشنل بینک کے اے ٹی ایم کو پہلے لوٹا گیا اس بعد اسے آگ لگائی گئی اس اے ٹی ایم میں ایک وقت میں پانچ سے دس لاکھ روپے کی رقم موجود رہتی تھی۔ میڈیسن سینٹر کچھی گلی نمبر ایک میں 40 سے زائد دکانیں جل گئیں جس میں موجود کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ رینجرز اور پولیس موجود تھی لیکن وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ۔ ڈینسو ہال پر موجود کئی مارکیٹوں میں اندر آگ لگ ہوئی تھی جس سے مسلسل دھواں اٹھ رہا تھا اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اسنارکل کی مدد سے ان بلڈنگوں پر مسلسل پانی پھینک رہی تھی۔ سب سے زیادہ نقصان چھانٹی گلی میں قائم دکانوں کو ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں مختلف مارکیٹوں میں تین ہزار سے زائد دکانیں تھیں۔ وہاں موجود دکاندار پولیس اور رینجرز کی بے بسی پر انہیں برا بھلا کہتے دکھائی دیئے ۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ ہماری زندگی بھر کی جمع پونجی لٹ گئی، ہم کل تک لکھ پتی اور کروڑ پتی تھے آج روڈ پر بیٹھے ہوئے ہیں، حکومت صرف وعدوں اور دعوں کے علاوہ کچھ نہیں کرتی، امداد کا اعلان کرتی ہے اور خالی لفافے پکڑا دیتی ہے، ایک دکاندار نے بتایا کہ کراچی کی بدترین آتشزدگی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لگائی گئی ہے۔

6 comments:

  1. جی فرحان،، اس حادثے نے ہر شہری کو سکتے میں ڈالدیا ہے۔ شہر خاموش ہے اور سمجھ مین نہیں آتا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ شاید کراچی کی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے جسے دہشت پھیلانے والوں نے انتہائ مہارت اور نفرت سے ترتیب دیا۔
    نفرت کے یہ پیامبر اپنے مذموم مقاصد میں پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے کہ عام شہریوں نے اس عظیم سانحے کے باوجود صبر اور ضبط کا دامن نہیں چھوڑا اور یہ سازش فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل نہ ہو پائ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان دہشت گردوں اور انکے تخلیق کاروں سے نجات دے۔ لیکن اس سب کے لئے ہمیں انکے خلاف متحد ہونا ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  2. اس سازش کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے آپ نے اس پر کچھ نہیں کہا

    ReplyDelete
  3. وہ کہتے ہیں نا کہ سڑک پہ آگئے۔ کچھ یہی حال کراچی کے تاجروں کا ہوا۔ ماضی میں بھی اس طرح کی جلاو گھیراو کے واقعات ہوئے لیکن جتنا نقصان حالیہ واقعہ میں ہوا، اتنا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔

    ReplyDelete
  4. کراچی کی موجودہ ترقی سے جلنے والوں نے یہ کام کیا ہے۔

    ReplyDelete
  5. اللہ رحم کرے۔ خیر دشمن تو وار کرے گا ہی۔ اپنی صفوں میں اتحاد سے ہی ایسے حربوں‌کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    ReplyDelete